ایک بار کسی دوست کے ہاں کھانے کے بعد بحث و مکالمے کی محفل جمی تھی، اس محفل میں ڈاکٹر خورشید رضوی بھی موجود تھے اور جس محفل میں ڈاکٹر خورشید رضوی ہوں وہ خود بخود علمی محفل کا روپ دھار لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اردو، فارسی اور عربی پر دسترس رکھتے ہیں، ان کے حافظے کی گٹھڑی ہر وقت سینکڑوں نایاب موتیوں سے بھری رہتی ہے، جو وہ سامنے والے کی استطاعت کے مطابق دان کرتے رہتے ہیں۔ اقبال کی شاعری پر بات ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے زبورِ عجم سے اقبال کا ایک فارسی شعر ترجمے کے ساتھ سنایا۔یقین کیجئے ان کا شعر سنانے اور سمجھانے کا انداز اتنا جداگانہ تھا کہ اس کی تاثیر ہر دل نے محسوس کی اور وہاں موجود ہر شخص اس شعر کے معنی میں پوشیدہ سرشاری میں ڈوب کر رہ گیا۔
شاید اقبال آج کے دور میں ہوتے تو ان کے اشعار کی خوبصورتی اور پیغام کی دلفریبی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے لوگ ان پر مختلف فتوے لگا رہے ہوتے۔ اقبال اور رومی دو ایسے صاحبِ کرامت شاعر اور فلسفی ہیں کہ ان کی شاعری میں حکمت،دانش اور فلسفے کے مکاتبِ فکر کی بنیادیں حوالوں کے ساتھ تلاش کی جاسکتی ہیں۔ شاعرانہ زبان و بیان کا چٹخارہ الگ سواد کی شیرینی لیے موجود ہے۔الفاظ کا چناؤ، تراکیب۔ شعری محاسن اور بات کہنے کے شاہانہ انداز سے فخروجلال جھلکتا ہے۔ جہاں گِلے شکوے اور دکھ کی بات ہو رہی ہے وہاں بھی بے بسی اور مایوسی نہیں بلکہ حاصلِ کلام یعنی نتیجے میں کسمپرسی اور تاریکی کی فضا میں بجھی ہوئی راکھ زندگی سے بھرے جذبے کو جنم دیتی ہے اور وقت کی انگشت حوصلہ نہ ہارنے کی گُھٹی دے کر نئے چیلنجز کو قبولنے پر ابھارتی ہے۔
اقبال کی زیادہ تر شاعری احساسات و جذبات کی بجائے فکری ڈھانچے پر کھڑی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی نظریہ جڑا نظر آتا ہے۔ دنیا بھر میں اقبال کے چاہنے والوں اور اقبال سے رنجش رکھنے والے ناقدین نے ہر ہر حوالے سے اس شاعری کی پرتیں کھولنے کی سعی کی اور تحسین و تنقید کے لیے مسالہ جمع کرنے کی کوشش کی۔
پچھتر سالہ جشنِ پاکستان کی تقریبات میں سال بھر اقبال کے حوالے سے تقریبات منعقد کرنے اور اسے اقبال کا سال قرار دینے کی محکمہ اطلاعات و ثقافت کی عمدہ کاوشیں21 اپریل سے’’جشنِ خودی‘‘ کے بینر تلے شروع ہو چکی ہیں۔ راجہ جہانگیر انور سیکریٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب اس قافلے کے سالار ہیں اور یہ نام بھی ان کا ہی تجویز کیا ہوا ہے۔فلسفہ خودی کو اجاگر کرنے سے مراد پاکستانی قوم کے مسلسل گِرتے مورال کو سنبھالنے اور اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی جدو جہد ہے۔ہماری سرزمین تاریخی، ثقافتی،معاشی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے بہت اعلیٰ روایات کی حامل ہے۔پائوں تلے موجود اس کی مٹی اور ذہنوں کے کھیت دونوں اس قدر زرخیز ہیں کہ ان میں اگنے والی فصل لاجواب ہوتی ہےلیکن ہمارے لوگ خصوصاً نوجوان نسل اس کی خوبیوں سے آگاہ نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے وارث ہونے پر ناز کرنے کی بجائے پچھتاوے اور شرمندگی کے احساس تلے دبے رہتے ہیں۔ نوجوان نسل میں بیداری اور زندگی کے فلسفہ کی تفہیم پیدا کرنے کے باب میں اقبال کے کلام سے بہتر کوئی رہنما نہیں۔ اقبال کو اسی صورتحال کا سامنا تھا اس لیے اُس نے خودی کا ایک پورا بیانیہ ترتیب دیا۔اقبال اپنی قوم کی ہر محاذ پرسربلندی کا خواہاں ہے، اس لیے وہ دنیا کے تاریخی وعلمی خزانوں سے مثالوں کے موتی تلاش کرکے لفظوں میں ڈھالتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اَنا،تکبر اور ذات کے حصار میں مقید نہیں بلکہ عمل،جدوجہد اور مسلسل کاوش پر استوار ہے۔ خودی وہ بلند ترین مرتبہ ہے جو اپنی ذات کی کثافتوں کو لطافتوں میں ڈھالنے کے اس مقام پر عطا ہوتا ہے جب انسان اور رب کی منشا ایک ہو جاتی ہے۔پھر بندہء خاکی کا ہاتھ تقدیر لکھنے والا قلم بن جاتا ہے اور مشیتِ ایزدی انسان کی تڑپ، طلب اور رضا کو دیکھتے ہوئے اس کا مقدر لکھتی ہے۔ اقبال کے فلسفہ خودی کا سرِ نہاں لا الہ الااللہ کا کلمہ ہے جو اپنی ذات کی نفی سے شروع ہوکر رب کے اثبات پر ختم ہوتا ہے۔ خدا کرے اقبال کے نام کئے گئے اس سال میں ہماری نوجوان نسل جس کی اکثریت منفی بھاشن سن کر غیر اخلاقی لب و لہجہ اختیار کر چکی ہے، اقبال کے کلام کی روح میں جھانکے اور اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے اپنی تربیت کرے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ