شاہد خاقان عباسی اپنی مختصر وزارتِ عظمی میں پاکستانی عوام کو تحفے کی صورت ایک ایسا قانون دے کر گئے ہیں، جس نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو عالمِ اسلام کا پہلا ایسا ملک بنا دیا ہے، جہاں ایک ہم جنس پرست مرد یا عورت اپنی میلانِ طبع کے مطابق خود کو نادرا کے تحت مرد، عورت یا خواجہ سرا رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ یعنی اگر بظاہر ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد بھی ہے، مگر اس کی میلانِ طبع (Inclination) ایک عورت کی طرح پہچانے جانے کی طرف مائل ہے تو وہ پاکستان کی معزز و محترم اسمبلی سے پاس کردہ “Transgender Persons (Protection of Rights Act 218)” قانون کی شق نمبر 3، سب شق نمبر 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ پاکستان کے کسی بھی حکومتی ادارے میں خود کو بحیثیت عورت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت خواہ وہ تین بچوں کی ماں کیوں نہ ہو، اسے اگر اچانک یہ خیال آتا ہے کہ وہ ایک مرد ہے تو اسے بھی وہی حق حاصل ہے۔ اس لئے کہ جنس کے تعین کیلئے اس قانون کے تحت کسی طبی معائنہ یا ڈاکٹر کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قانون کی شق نمبر 2 کی ذیلی شق (F) کے مطابق “Gender Identity: Means a person’s innermost and individual sense of self as male, female or a blend of both or neither that can correspond or not the sex assigned at birth”۔(جنس کی شناخت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آدمی پوشیدہ ترین طور پر جو خود کو محسوس کرتا ہے، یا اس کا ذاتی طرزِ احساس جو اسے بتاتا ہے کہ وہ مرد ہے، عورت ہے ، دونوں کا ملغوبہ ہے یا نہیں ہے، یہی اس کی جنس ہے۔ خواہ وہ اس جنس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو جو پیدائش کے وقت اسے بتائی گئی (Allotted)ہو)۔ اسی تعریف کی بنیاد پر اس قانون میں ایک اصطلاح ڈالی گئی، “Self Perceived Gender Identity” ۔ ذاتی تصور میں آئی ہوئی جنسی شناخت یہ ہے وہ ہتھیار جسے قانونی طور پر پاکستان کے تمام مرد و زن کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے کہ اب وہ جب اور جس وقت چاہیں خود کو مرد سے عورت، عورت سے مرد،مرد سے خواجہ سرائ،خواجہ سرا سے عورت کے طور پر رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔یہ قانون اس قدر چالاکی اور عیاری سے تیار کیا گیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کو بھی اس کی باریکیاں سمجھ نہ آ سکیں اور انہوں نے قانون سازی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اس کے حق میں رائے دے دی۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب میں 27 اکتوبر 2021 کو میں اسلامی شرعی عدالت کے سامنے پیش ہوا تو قانون کے دفاع میں ایک شخص آیا ہوا تھا۔ یہ شخص جو اطلاعات کے مطابق کبھی بحیثیت مرد اسلام آباد یونیورسٹی میں لیکچرر ہوتا تھا، پھر اس کے سر میں یہ سودا سمایا کہ وہ ایک عورت ہے اور اس نے اپنا حلیہ، لباس اور رنگ ڈھنگ عورتوں والا کر لیا اور خود کو بحیثیت ایک خواجہ سرا کہلوانا شروع کر دیا۔ یہ شخص عائشہ مغل کے نام کے ساتھ محترمہ شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق میں کام کر رہا ہے۔ یہ 2020 میں سوئٹزر لینڈ میں اقوامِ متحدہ کے حقوقِ نسواں کے کنونشن میں سرکاری وفد کا حصہ بھی رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ قانون پاس کروانے میں اس شخص کا بہت حصہ ہے۔ عدالت کے روبرو اس نے کہا کہ ہمارے اس قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری حاصل ہے، لیکن جب بغور مطالعہ کیا گیا تو یہ صرف قبلہ ایاز کی ایک ذاتی رائے تھی، جو انہوں نے قانون ساز کمیٹی کے سامنے دی۔ دراصل قانون بنانے والوں نے خواجہ سرائوں کے حقوق کا سہارا لے کر ایسی چابکدستی اور عیاری سے اس قانون کا مسودہ تیار کیا ہے کہ اس میں ہم جنس پرستوں کیلئے قانونی تحفظ کا ایک شاندار چور دروازہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس قانون کے فیوض و برکات اب واضح ہونا شروع ہوئے ہیں۔ ستمبر میں لکھے گئے میرے کالم کی بنیاد پر پاکستان کے سینٹ میں ایک سوال پوچھا گیا کہ اس قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنے لوگوں نے اپنی جنس کی تبدیلی کی درخواستیں جمع کروائیں ہیں یا کتنے افراد نے اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی جنس کو تبدیل کروا لیا ہے۔ اس سوال پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں وہ خوفناک ہیں۔ جولائی 2018 سے لے کر جون 2021 تک گذشتہ تین سالوں میں 28,723 افراد نے اپنی میلانِ طبع اور اندرونی طور پر محسوس کئے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی اس جنس سے علیحدہ شناخت کیلئے درخواست دی ہے جو انہیں پیدائشی طور پر عطا (Allot)کی گئی تھی۔ ان میں سب سے زیادہ مرد ہیں، یعنی 16,530 ایسے مردوں کے کیس اس وقت زیرِ غور ہیں جو خود کو عورت کے طور پر رجسٹرڈ کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد 12,154 ایسی عورتیں ہیں جنہیں پیدائش کے وقت لڑکی بتایا گیا تھا، مگر وہ اب خود کو مرد کہلوانا اور قانونی طور پر مرد بننا پسند کرتی ہیں۔ صرف 9 ایسے مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دراصل خواجہ سرا ہیںمگر ہمیں غلطی سے مردوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے بالکل برعکس 21 خواجہ سرا وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو مکمل طور پر مرد ہیں اور اب ہمیں مرد کہا جائے۔ جبکہ 9 خواجہ سرائوں نے خود کو عورت کہلوانے کیلئے درخواست دی ہے۔ اس قانون کے تحت کسی میڈیکل معائنے یا ڈاکٹر کی گواہی کی قانونی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے بڑی گواہی اور سب سے بڑا قانون، انسان کے پوشیدہ ترین، اندرونی احساسات و جذبات کی گواہی ہے جو حتمی فیصلہ ہے۔ اس گواہی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی کوئی بھی اہم شخصیت ایک دن خواب سے بیدار ہو، اور اچانک اعلان کر دے مجھے ایک عورت یا خواجہ سرا جیسے جذبات و احساسات اپنے اندر محسوس ہو رہے ہیں تو پاکستان کا یہ قانون چشم زدن میں بغیر کسی طبی معائنہ کے اسے عورت یا خواجہ سرا کے طور پر رجسٹرڈ کر سکتا ہے۔ کوئی ماں بچوں کو چھوڑ کر مرد بن سکتی ہے اور کوئی مرد بیوی کو چھوڑ کر عورت۔ اس قانون کا ایک اور باریک نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ براہِ راست مرد سے عورت یا عورت سے مرد نہ بھی بنیں، کیونکہ عوامی ردِعمل سے بہت زیادہ خائف ہوں، تو پھر پہلے زینے یعنی “Step” کے طور پر آپ خواجہ سرا بن جائیں، اور یوں دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد، ایک دن عورت بن جائیں یا مرد۔ ایسے خواجہ سرا کو جنسی تبدیلی کے آپریشن کا بھی لائسنس مل جائے گا۔ تین سال میں 28,723 افراد کی جنس تبدیلی کی درخواستوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ اگر ہفتے کے سات دن مسلسل کام ہوتا رہے، اور کوئی چھٹی نہ ہو تو یہ روزانہ 27 درخواستیں بنتی ہیں، یعنی ہر گھنٹے میں دو لوگوں نے جنس تبدیلی کی درخواست جمع کروائی۔ یہ رجحان خوفناک ہے۔ ایک ایسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے اور جہاں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت یہ قانون بن رہا تھا تو اراکینِ پارلیمنٹ کہاں سوئے ہوئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور ان کے ہمنوا اراکینِ پارلیمنٹ نیب کی عدالت سے تو شاید بچ جائیں، لیکن اللہ کی عدالت میں کیا عذر پیش کریں گے۔ نوٹ: 2 دسمبر 2021 بروز جمعرات ، اسلامی شرعی عدالت اسلام آباد میں اس قانون کے حوالے سے پیشی ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جا چکا ہے۔ یہ کیس تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے علما کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔اسلامی شرعی عدالت کو آپ کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہونی چاہئے۔