اسلام آباد(صباح نیوز)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے معاشرے میں مثبت سوچ اور طرزِ عمل کو فروغ دینے کے لیے ذمہ دارانہ انداز اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مکمل ہم آہنگی اور قوم کے ثقافتی تنوع کو اتحاد میں بدلنے کے لیے امن و رواداری کی اقدار پر مبنی پاکستان کا ثقافتی بیانیہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ منگل کو یہاں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں قومی یکجہتی اور ثقافتی ہم آہنگی کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان کی ثقافت تمام صوبوں اور قومیتوں کے رسوم و رواج کا حسین امتزاج ہے۔ وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے تحت قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس میں ملک بھر سے سکالرز نے شرکت کی تاکہ قومی ثقافتی انضمام کے موضوع پر غور کیا جا سکے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی ثقافت بقائے باہمی اور ہم آہنگی کے تصور سے جڑی ہوئی ہے، قوم کو سماجی قبولیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے رہنما اصول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب اور خواہشات کا باہمی تعامل بعض اوقات خود کو رواداری و برداشت کے راستے سے ہٹا سکتا ہے، جب بھی کسی خاص عقیدے کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے تو مصائب اور تنازعات سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ثقافت ملک کے سماج کو باہم منسلک کر سکتی ہے جو ہم آہنگی پر زور دیتی ہے۔ انہوں نے قوم پر زور دیا کہ وہ مذہب کی آڑ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں سے ہوشیار رہیں، اس طرح سماجی تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے۔ انہوں نے صوفی بزرگوں کے پیغام کو فروغ دینے پر بھی زور دیا جس میں دلوں کو جوڑنے کے لیے رواداری پر توجہ دی گئی۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ دو قومی نظریہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد ہے جس نے ایک قوم کی الگ مذہبی، ثقافتی اور روایتی شناخت پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کے ہندوستان میں ہندو انتہا پسند آر ایس ایس مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کو مٹانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور خبردار کیا کہ یہ صورت حال خود بھارت کو ثقافتی تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔اس موقع پر صدر مملکت نے معاشرے میں مثبت سوچ اور طرزِ عمل کو فروغ دینیکے لیے قوم میں تقسیم پیدا کرنے کا سبب بننے والے جعلی خبروں کے رجحان کو ترک کر کے ذمہ دارانہ انداز اپنانے پر زور دیا۔ وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی ثقافت مختلف رسم و رواج، زبانوں اور روایات پر مشتمل ہے جس میں ان کی منفرد خوبصورتی اور رنگ شامل ہیں۔ انہوں نے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ثقافت، تاریخ اور ملک کی تمام اکائیوں پر مشترکہ بیانیے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نوآبادیاتی دور کا ورثہ اس سرزمین کی ثقافت میں بگاڑ کا باعث بنا، تاہم اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے تنوع کا خیرمقدم کرنا بھی ضروری ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ اکیڈمک کانفرنس کا مقصد تمام صوبوں کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے ثقافت پر قومی بیانیہ تیار کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ انہوں نے اس خطے کے صوفی کرداروں کو اجاگر کرنے اور بابا بلھے شاہ، خواجہ فرید، میاں محمد بخش، رحمان بابا، پیر مہر علی شاہ اور دیگر کئی اولیا کرام کے پیغام کو فروغ دینے پر زور دیا تاکہ بے لوث، برداشت اور ہم آہنگی پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ اس موقع پر قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کے ثقافتی رنگوں پر مبنی ملی نغمے پیش کئے۔ علاوہ ازیں روایتی لباس میں ملبوس پی این سی اے کے فنکاروں کے ایک گروپ نے لوک گیتوں کی دھنوں پر ثقافتی رقص پیش کیا۔