اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان میں بجلی کے شعبے میں مسابقتی تجارت اور دو طرفہ معاہدوں (سی ٹی بی سی ایم) پر مشتمل ماڈل کے نفاذ سے شعبے میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے علاوہ مقابلے کی مجموعی فضا میں بہتری لائی جا سکے گی۔
توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اس امر کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی)کے زیر اہتمام پاکستان میں بجلی کے شعبے کے حوالے سے مستقبل کے رجحانات کے موضوع پر منعقدہ اہم اجلاس کے دوران کیا۔لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری نے شرکا کو پاکستان میں سی ٹی بی سی ایم ماڈل کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد بجلی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لانا اور اس شعبے میں فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔
نیپرا کے ڈائریکٹر جنرل امتیاز حسین نے کہا کہ پاکستان میں اس ماڈل کو متعارف کرانے کا مقصد شعبے میں اہم اصلاحات متعارف کرانا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے جائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا اس نظام کو کامیابی سے متعارف کرانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاور ت کا عمل ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں پالیسیوں میں بہتری لانے کے ضمن میں سی ٹی بی سی ایم اہم کردار ادا کرے گا تاہم نجی اور سرکاری شعبے میں متعلقہ لوگوں کو اس کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا سٹرکچر بورڈ کے محمد فیصل شریف نے شرکا کو بتایا کہ ان کا ادارہ نئے نظام کو متعارف کرانے کے عمل کے دوران بولی کے حوالے سے آزاد ایڈمنسٹریٹر کا کردار ادا کرے گا۔نیپرا کے مشیر گل حسن بھٹو، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے سید شاہیر علی، کے الیکٹرک کے سمیر حسن اور، ریسورس فیوچر پاکستان کے خرم لالانی نے بھی اجلاس کے دوران موضوع کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی۔
ایس ڈی پی آئی کے انرجی و چائنا سٹڈی سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر حنا اسلم نے مشاور ت کے اس عمل کے جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایس ڈی پی آئی کا نیٹ ورک فار کلین انرجی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ایس ڈی پی آئی کے احد نذیر نے قبل ازیں شرکا کو موضوع کی مختلف جہتوں سے تفصیلی طور پر آگا ہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے شعبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔