’’اللہ ای جانے کون بشر ہے ‘‘۔۔۔تحریر حسن نثار


میرا ذاتی خیال ہے کہ آنے والے ڈیڑھ دو سو سالوں میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ عقیدوں، ثقافتوں اور تہذیبوں میں سے کون کتنا اہم یا فیصلہ کن ہو گا؟ گلوبل ازم یا یونیورسلزم کی آخری شکل کیا ہوگی ! آج مغربی، اسلامی، ہندو، جاپانی، آرتھوڈوکس، افریقی، لاطینی امریکی تہذیبیں فیصلہ کن مراحل سے گزر رہی ہیں ۔ ان سب کی تاریخ کا گہرائی میں اتر کر جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر عقیدوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کو اک شے بیحد آہستگی سے نگلتی جا رہی ہے۔ ’’نگلنے‘‘ کا لفظ اگر ذرا زیادہ سخت اور ڈرائونا محسوس ہو تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’کچھ‘‘ جو ان سب کو دھیرے دھیرے ’’ایکلپس‘‘ کرتا جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ’’ایکلپس‘‘ کرنے کے عمل کی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسے انگریزی میں ’’سنوبالنگ‘‘ کہتے ہیں ۔ اس صورتحال کو سمجھنا ہو تو صرف ’’وقت کے رویہ‘‘ پر نظر ڈالیں کہ کبھی ایک صدی کئی کئی صدیوں پر محیط ہوتی تھی کیونکہ انسان نقطۂ انجماد پرتھا۔پھر یوں ہوا کہ سکڑتے سکڑتے ایک صدی، ایک صدی کے برابر ہو گئی جس کےبعد ’’وقت کا موڈ‘‘ تبدیل ہوا تو سب کچھ ریورس ہونا شروع ہو گیا جس کا سادہ ترین ثبوت یہ ہے کہ آج کل ایک سال میں ایک سے زیادہ صدیوں کا سفر طے ہو رہا ہے ۔

ٹیلی گراف، ٹیلی پرنٹر، ٹیلیکس، پیجر اور پھر فیکس کے بعد یہ سیل فون ہمارے سامنے کی باتیں ہیں اور آج کل تو کچھ ’’افسانوں’’ اور ’’الف لیلوی‘‘ کہانیوں کے مطابق وہ وقت دور نہیں جب کسی آلے کی ضرورت بھی نہ رہے گی، اندر کہیں ایک ’’چپ‘‘ لگی ہو گی اور آپ کا کوڈ سوچتے ہی مجھے آپ سے ملا دے گی، آج کے بیشتر اہم پروفیشنز خواب وخیال بھی نہ رہیں گے جیسے کل تک ہاتھیوں کیلئے مہاوت، ڈولیوں کیلئے کہار، بچھانے کیلئے چاندنیاں ،جلانے کیلئے پاتھیاں، سُلانے کیلئے لوریاں، پینے کیلئے کٹوریاں، چھڑکائو کیلئے ماشکی اور مشکیں، روئی دھنکنے کیلئے پینجے، مچھروں سے بچائو کیلئے مسہریاں، آمدورفت کیلئے گڈے اور گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ایک صدی سے بھی کہیں مدت میں یہ سب کچھ درہم برہم ہوگیا اور آج ایک صدی ایک دن کی قید میں پھڑپھڑا رہی ہے اور یہی وہ عمل ہے جس کو ضربیں لگتے دیکھنے کیلئے شہہ دماغ ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ سمجھنے میں مشکل ہونی چاہئے کہ آئندہ ڈیڑھ دو سو سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی عقیدوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ کیا کچھ کر سکتی ہے ؟

جب ایک جیسا ماحول، ایک جیسی تعلیم وتربیت، ایک جیسی ترجیحات، ایک جیسی رسومات، ایک جیسے مناظر، ایک جیسی مصنوعات، ایک جیسی ترغیبات، ایک جیسی آوازیں، کتابیں، موسیقی ، رقص، غذائیں، لباس، علاج، دوائیں، قوانین ہوں گے تو کیا ہو گا ؟ رانجھا رانجھا کردے سارے آپے رانجھا ہوئے ۔

ابھی کل کی بات ہے تصویر حرام تھی ، آج ہم پاسپورٹ کے بغیر ویزے اور سفر کا سوچ بھی نہیں سکتے اور پاسپورٹ پر تصویر کا ہونا بنیادی شرط ہے تو اسی معمولی سی تصویر کو پوری دنیا پر پھیلا کر دیکھ لیں تو سب کچھ سمجھ آجائے گا بشرطیکہ دماغ ہی ’’لاک‘‘ نہ ہو گیا ہو ۔

فرمایا’’کفر پہ قائم معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے، ظلم پر قائم معاشرہ نہیں ‘‘ تو اگر ظلم پر قائم ایک انسانی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا تو ظلم پر قائم پوری انسانیت کیسے زندہ رہ سکتی ہے ؟ آج نہیں تو کل یہی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ظلم کیلئے ضرب عظیم ثابت ہو گی۔اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہمیں یہ یاد کرنا ہو گا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتحین نے اقوام متحدہ سے لیکر ورلڈ بینک تک جو ادارے قائم کئے وہ بنیادی طور پر ان کی مضبوطی اور تحفظ کیلئے تھے، باقی سب ایکسٹراز اور ALSO RANٹائپ مخلوق۔ مختصراً یہی ’’سائنس اور ٹیکنالوجی‘‘ ہو گی جو اونچ نیچ قائم رکھتے ہوئے ظلم سے پاک گلوبل معاشرہ کے جنم کو ڈکٹیٹ کرائے گی ۔ کیسے ؟ یہ ایک بالکل ہی علیحدہ بحث ہے۔

سائنس اور اس کی بہن ٹیکنالوجی خودبخود نہیں پیدا ہوئی بلکہ اس کا خالق بھی وہی ہے جو ان جہانوں کا خالق ہے جسے ’’سیکولر‘‘ طریقہ سے یوں بیان کیا گیا۔

’’وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ‘‘

دو ہی صورتیں ہیں ۔

اول، سائنس اور ٹیکنالوجی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صحرائوں، جنگلوں کی طرف نکل جائیں اور اک ’’نئی دنیا‘‘ آباد کریں ۔

دوسری صورت، عصرِ حاضر اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ان سے استفادہ بھی کریں اور اس کا انکار بھی اور اس حقیقت کو کوئی ذی شعور جھٹلانے کی حماقت نہیں کر سکتا کہ اگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا ہے تو اس سے جڑی تہذیب اور ثقافت سے بھی مفر ممکن نہیں ۔انسان ایک رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اور کوئی دنیاوی طاقت اسے ریورس نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ خالق کے حکم سے ہی سائونڈ بیریئرز توڑ چکا ….سو ڈیڑھ سو سال بعد کی دنیا کیسی ہو گی ؟

اللہ ای جانے کون بشر ہے اور کس کا کیا حشر ہو گا؟

بشکریہ روزنامہ جنگ