پسماندگی کا کلچر ۔۔۔ تحریر : نعیم قاسم

اگر ہم غور و خوض سے کام لیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے تمام تر مصائب کی بڑی وجہ معاشی اور سماجی کلچر کی پسماندگی ہے _کلچر سے مراد معاشرتی زندگی میں معاشی لین دین میں کارفرما ذرائع پیداوار، سرمایہ اور ٹیکنالوجی کا نیٹ ورک ہے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں غلامی، قبیلہ پرستی، ذات پات، فیوڈل ازم، آمریت، عورت کی ادنیٰ حیثیت، جبر اور کرپشن کا کلچر کسی مذہب نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ برضغیر میں یہ سب خرابیاں صدیوں سے موجود ہیں جن کی جڑیں ان کی تہذیب و تمدن سے پھوٹتی ہیں ہر مذہب کو یہ خرابیاں ورثے میں ملی ہیں جن کی اصلاح کے لیے مذہبی زعماء وعظ و تبلیغ کرتے چلے آرہے ہیں انتہا پسندی کا تعلق بھی کس بھی مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ قدامت پرستانہ نسلی تفاخر اور سماجی برتری کے تعصبات سے جنم لیتا ہے جبکہ غریب ممالک میں جبر اور کرپشن کا کلچر نامیاتی انٹر ایکشن سے ایک باقاعدہ سسٹم کی طرح پھلتا پھولتا ہے _کسی بھی ملک میں کرپشن کی سطح کا تعین اس کی عالمی سرمایہ دارانہ دنیا میں اسکی حیثیت سے ہوتا ہے مذہبی شدت پسندی کا منبع بھی قبائلی طرز زندگی سے پھوٹتا ہے عیسائی رونڈا، مسلمان افغانستان، بدھ، میانمار اور بنیاد پرست پاکستان میں کرپشن، قتل و غارت آمرانہ طرز حکومت اپنی انتہائی صورتوں میں اس لیے بھی موجود ہیں کہ ان کی برآمدات کم ترین سطح پر ہیں اور درآمدات بہت زیادہ ہیں اس تجارتی خسارے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ جنم لیتا ہے سمگلنگ کا کاروبار پیدا ہوتا ہے اور ملک معاشی بحران کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کے جال میں پھنس جاتا ہے ایک طرف معاشی بدحالی، تو دوسری طرف جہالت اور ماضی پرستی میں مبتلا قومی زعماء اور دانشور
معروضی حقائق سے نظریں چرائے رکھتے ہیں شناخت کی تلاش میں کبھی غیر ملکی حملہ آوروں تو کبھی عربوں سے نسبت بناتے ہوئے احساس برتری میں مگن رہتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے بہت سے قبا ئل کے ڈی این اے کے جینز کو ڈی کوڈ سے معلوم ہوا ہے کہ ان کی اکثریت کا عربوں کے شجرہ نسب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے بہرحال اعلی حسب و نسب کے خود ساختہ پاکستانی ہر وقت ماضی کی رومانویت کا شکار ہو کر اپنے ہیروز پر فخر و انبساط کرتے ہوئے اپنے آپ کو بھی بزعم خویش اعلیٰ ترین مقام پر بٹھائے رکھتے ہیں جسکی وجہ سے من و سلویٰ کی آس میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیھٹے رہتے ہیں اکثر پاکستانی دانشور اکبر بادشاہ اور شیر شاہ سوری کی مثالیں دیں گے یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے سڑکیں بنائیں، پانی کی باؤلیا ں اور سرائیں تعمیر کیں مگر ان بادشاہوں نے انقلابی ایجاد چھاپہ خا نہ نہ لگوایا تاکہ علم کی رسائی سستے داموں عوام تک پہنچ سکے ترقی ایک کلچر کا نام ہے برضغیر کے حکمرانوں نے ترقی کا کلچر پیدا ہی نہیں کیا جو کچھ بھی کیا اسے مثالی قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ کہ حقیقی ترقی، تخلیقی ذہانت، اور خداداد ٹیلنٹ کبھی زوال پزیر نہیں ہوتا ہے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی، چاپان اور یورپ کے پیشتر ممالک مکمل تباہی اور بربادی کا شکار ہو گئے تھے مگر مارشل پلان کی بدولت یہ ممالک دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اور پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ بن گئے چین، جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگا پور بھی ایسے ممالک ہیں جو ترقی کے حقیقی کلچر پر عمل پیرا ہو کر معاشی طور پر خوشحال اور خود مختار ہیں _مغرب میں معاشی، سماجی اور فکری ترقی کا کلچر سائنسی علم اور تحقیق و جستجو سے پیدا ہوا جس کی وجہ سے وہ نالج اکانومی کی بنیاد پر مسلسل ترقی کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم نے ترقی کی ناپختہ تفھیہم کے ذریعے پوری قوم کو کنفیوز کر رکھا ہے ہم حکمرانوں کی ذاتی پریز گاری اور امانت داری کی بنیاد پر اسکو بڑے اعلیٰ مقام پر رکھتے ہیں اورنگ زیب اور ناصر الدین ٹوپیاں بنا کر اپنی روزی کماتے تھے لیکن کیا ان کے ذاتی کردار کی وجہ سے ہندوستان میں دیانت داری کا کلچر پیدا ہوا کیا ضیاء الحق کی اسلام سے وابستگی نے پاکستان کے عوام کو نیکوکار بنا دیا تھا جب حکمرانوں کے رویے آمرانہ، متعصبانہ اور منافقانہ ہوں تو چاہے وہ سرکاری خرچ پر حج عمرے کریں، خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل کریں اور میڈیا کے ذریعے اپنی پارسائی کی تشہیر کریں تو معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا ہے حکمران مذہبی ہوں یا لبرل، ہمارے سیاست دان، بیوروکریٹس، تاجر، صنعتکاروں کی اکثریت بددیانتی کو اپنا کاروباری گر سمجھتے ہوئے ناجائز منافع خوری کو اپنی جائز کمائی سمجھتے ہیں آج رومانویت کے شکار لوگوں سے پوچھا جائے کہ کہ آپ کے مغرب کی طرح انسان کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے تو وہ جواب دیں گے کہ مغرب نے جو کچھ سیکھا ہے ہمارے بڑوں سے ہی سیکھا ہے تو جناب آپ بھی اب ان سے انسان دوست معاشرے کی تخلیق سیکھ لیں جہاں سب انسانوں کو چیک اینڈ بیلنس کی بنیاد پر یکساں حقوق حاصل ہیں جہاں سماجی تحفظات کا ایسا نظام ہے جو ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تھا پریز گاری کے واعظ کی بجائے ایسا مادی فریم ورک ہونا چاہیے جہاں کوئی کسی کی حق تلفی نہ کر سکے لیکن ہم نہ تو معاشرتی عدل و انصاف کے لیے حقیقی فریم ورک بنانا چاہتے ہیں اور نہ ہی معاشی مواقع سب کو یکساں دینے کے لیے تیار ہیں تو امید کرتے ہیں کہ ہم اپنی نام نہاد اخلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر لیں گے