پاکستان جیسے ملک کبھی تیسری دنیا کا حصہ تصور ہوتے تھے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں تقریبا اکثریت کی حامل یہ دنیا خود کو سرمایہ دار اور کمیونسٹ کیمپوں سے الگ سمجھتی تھی۔ سامراج کی غلامی سے آزادی کے بعد بھی لیکن ان ممالک کی حکمران اشرافیہ کو سرد جنگ کے دوران مذکورہ بالا کیمپوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا ضروری تھا۔ یہ ساتھ ملک میں استحکام اور خوشحالی کی خاطر جائز ٹھہرایا جاتا۔
ہماری حکمران اشرافیہ نے 1950 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ کا بغل بچہ بننے کی ٹھان لی۔ بات چلی تو بالآخر فیلڈ مارشل ایوب خان کے اکتوبر1958 میں لائے انقلاب پر ختم ہوئی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد فوجی آمر نے صدارتی نظام کے نفاذ کے لئے 1962 کا آئین مسلط کیا۔ یہ وہی دستور تھا جس کو میں نہیں مانتا کہتے ہوئے حبیب جالب پولیس کی لاٹھیوں اور جیلوں کا سامنا کرتے رہے۔ دس برس تک نافذ رہنے کے بعد اس دستورکے خالق ایوب خان نے عوامی تحریک کے ہاتھوں استعفی دینے کا فیصلہ کیا تو اقتدار اس وقت کی قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحیی کو ایک اور مارشل لا لگانے کی دعوت دے دی۔ وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح پاکستان کو کم از کم ایک دہائی تک رہ نمائی فراہم کرنا چاہتے تھے۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر لیکن پہلے عام انتخاب کروانے کو مجبور ہوئے۔ اپنی ہی نگرانی میں کروائے انتخاب کے نتائج کو البتہ تسلیم نہ کیا اور ملک دو لخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو بقیہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد ہوا۔ انہوں نے 1973 کا متفقہ آئین دیا۔
آرٹیکل6 کے ہوتے ہوئے بھی بھٹو کا بنایا آئین جنرل ضیا کے جولائی 1977 میں لگائے مارشل لا کا نفاذ روک نہ پایا۔ مارشل لا لگانے کے باوجود جنرل ضیا نے اگرچہ 1973 کے آئین کو تاریخ کے کوڑے دان میں نہیں پھینکا۔ منسوخ کرنے کے بجائے اسے ملک میں استحکام وخوشحالی کے حصول کے لئے کامل 8برس تک معطل رکھا۔ معطل شدہ آئین میں لیکن ترامیم متعارف ہوتی رہیں۔ جو ترامیم فوجی آمر نے اپنی سہولت کی خاطر مسلط کیں انہیں 1985 کے انتخاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر قائم ہوئی قومی اسمبلی نے برقرار رکھا۔ صدر کو منتخب اسمبلی توڑنے کا خصوصی اختیار آٹھویں ترمیم کی صورت 73 کے آئین کا حصہ بن گیا۔ آٹھویں ترمیم کو 2008 میں ایک اور فوجی آمرجنرل مشرف کے استعفی کے بعد اٹھارہویں ترمیم نے ختم کیا۔ اٹھارہویں ترمیم بھی لیکن ہماری حکمران اشرافیہ کو مطمئن نہ کرپائی۔ ملک کو استحکام دینے کی خاطر بتدریج ہم آئین میں 26 ویں ترمیم تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو نظام قائم ہوا ہے اسے ہائی برڈ کہا جاتا ہے۔ کار کی وہ قسم جو پٹرول کے علاوہ بیٹری سے بھی چلائی جاسکتی ہے۔ میں ابھی تک یہ طے نہیں کرپایا کہ موجودہ نظام کا پٹرول پارلیمان ہے یا ریاست کے چند دائمی ادارے۔ گاڑی مگر چل رہی ہے اور ہم ہائی برڈ حکومتی بندوبست کو پارلیمانی جمہوریت پکارنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
بات مگر تیسری دنیا سے شروع ہوئی تھی۔ مذکورہ اصطلاح ان دنوں مستعمل نہیں رہی۔ غالبا سوویت کیمپ کا خاتمہ اس کی کلیدی وجہ ہے کیونکہ چین کے ہاں جو کمیونزم ہے اسے ہمارا یار دیگر ممالک پر مسلط کرنے سے باز رہتا ہے۔ نظام ہمارے ہاں صدارتی ہو یا پارلیمانی، مارشل لا سے ہائی برڈ ہوتے ہوئے یہ آزادی اظہار نامی شے کو محدود سے محدود تر کرتا چلا گیا ہے۔ سوویت یونین کی قیادت میں قائم کیمپ کے ہوتے ہوئے ہم جمہوریت کے چمپئن بنے امریکہ کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی اپنی اشرافیہ کے لئے بے زبان رعایا کی مانند رہے۔
خبر جاننے کے لئے بی بی سی ریڈیوکی اردو سروس کا جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران بے تابی سے انتظار رہتا۔ اس کا سیربین نامی پروگرام جمہوری نظام کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا محسوس ہوتا۔ بی بی سی ریڈیو کے علاوہ ٹی وی بھی ہواتو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کا سرپرستانہ مربی ہوتے ہوئے بھی برطانیہ نے اس سرکاری طورپر چلائے نشریاتی ادارے کو پاکستان کے حقائق بیان کرنے سے نہیں روکا۔ ہمارے دلوں میں جمع ہوئی مایوسی اور بھڑاس کے لئے بی بی سی ہی نے ہارڈ ٹاک نامی ایک اور پروگرام بھی متعارف کروایا۔گزشتہ 30برسوں سے یہ پاکستان ہی نہیں آمروں کی زد میں رہے تیسری دنیا کے کئی سلطانوں کو سٹوڈیو میں بلواکر سخت ترین سوالات اٹھاتا رہا۔ تیسری دنیا کی رعایا اپنی اشرافیہ کی بی بی سی کے ہاتھوں بے عزتی سے خوش ہوجاتی۔
ہارڈ ٹاک کا میزبان ان دنوں سٹیفن ساکورنامی اینکر تھا۔ اس کی عمر 61سال ہے۔ کیمرج یونیورسٹی میں تاریخ کا طالب علم رہا ہے۔اپنے مہمانوں کو استغاثہ کے وکیل کی طرح رگڑنے کی مہارت سے مالامال ہے۔اس کے پروگرام کو دنیا کے 200ملکوں میں سات کروڑ لوگوں کے قریب اوسطا دیکھا کرتے تھے۔ بی بی سی نے 30سال تک جاری رہے اس مقبول ترین پروگرام کو مگرمارچ 2025میں بند کردیا گیاہے۔ وجہ اس کی معاشی دباؤ بتائی گئی ہے جو بی بی سی جیسا ادارہ بھی سوشل میڈیا کے موجوہ دور میں شدت سے محسوس کرنے کا دعوی کررہا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے بھی وائس آف امریکہ کو امریکی سرمایے کازیاں ٹھہراتے ہوئے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ کا فیصلہ سمجھ میں آتاہے مگر برطانیہ میں طویل عرصے بعد لیبر پارٹی اپنے ہاں کے قدامت پرستوں کو شکست دے کر اقتدار میں لوٹی ہے۔ اس سے بی بی سی جیسے اداروں کے حکمرانوں کو جوابدہ بنانے والے پروگرام بند کرنے کی توقع میری عمر کے صحافی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہارڈ ٹاک مگر بند کردیا گیا ہے۔
تاریخ کا ادنی طالب علم ہوتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے وائس آف امریکہ کی کامل بندش اور بی بی سی جیسے اداروں کی جانب سے ہارڈ ٹاک جیسے پروگراموں کے خاتمے کا فیصلہ مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی اشرافیہ اب جمہوری نظام کی برکات ہم جیسے سلطانوں کے عادی ممالک کے دل ودماغ میں بٹھانے کو تیار نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب جمہوریت اور انسانی حقوق کی خواہ دکھاوے کی محبت ہی سہی گورے کا تاریخی جبر (White Man’s Burden)شمار ہوتا تھا۔ زمانہ مگر اب بدل گیا ہے۔ ٹرمپ ہو یا سرمایہ دارانہ ممالک کا کوئی اور رہ نما، سیاسی طورپر مختلف رائے رکھتے ہوئے بھی اب اس امر پر متفق ہیں کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں کو مہذب بنانا ان کا ذمہ نہیں رہا۔ پاکستان جیسے ملکوں کی رعایا کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بری خبر ہونے کے باوجود وسیع تر تناظر میں اسے میں اچھی خبر سمجھتا ہوں۔ ہم واقعتا آزادی اظہار کے متمنی ہیں تو اس کا وسیلہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی کیوں ہوں؟ اپنی زنجیریں ہمیں خود ہی توڑنا ہوں گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت