پاکستان میں ابھی تک ضیاالحق کےزمانے کے قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ 8؍مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کے جلوس نکلتے ہیں جس میں ترقی پسند مرد اور نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں مگر 8؍مارچ کےعورتوں کے چھوٹے سے جلوس پر مقدمہ قائم کردیا گیا کہ ڈی سی سے NOCنہیں لیا تھا جو کام اور جو اقدام حکومت کو اپنے لئے خطرناک لگےاس کا NOCنہ ملنے کا زمانہ ڈیڑھ سو سال سے چل رہا ہے۔ جلسہ کرو، تھیٹر کرو، ورکشاپ کرو ڈی سی سے اجازت نامہ لے کر کر سکتے ہو۔ ہندوستان میں آزادی کی لہر اٹھتی دیکھ کر عوام کے خلاف اور انہیں روکنے کیلئے گوروں نے یہ قانون بنایا تھا۔ 75برس سے پاکستان میں اور کسی قانون پرعمل ہو نہ ہواس پر اور خاص طور پر خواتین سے متعلق چاہے اسلام آباد میں چاہے کوئٹہ میں عمل ضرور ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت نے بہت کام کرنے کی ٹھانی ہے پیسے جتنے پاس ہوں ان کو استعمال کرچکے پوچھا گیا کہ ستھرا پنجاب میں چھوٹے دیہات میں جو صحت اور تعلیم کے مراکز ہیں ان کو کس کھاتے میں مقامی اداروںکے سپرد کر دیا گیا ہےجبکہ مقامی اداروں میں الیکشن تومکمل نہیں ہوئے ۔ یہ سوچ جس پر عمل درآمدپہلے شروع کر دیا گیا ہے تو پھر وہ سارے غریب خواتین و حضرات چِلا رہے ہیں کہ ہمارے فنڈز ، ہماری تنخواہیں کون دے گا۔ یہ موضوع بہت اہم ہے اس لئے ہے کہ پھر بنے ہوئے ڈاکٹروں کا کاروبار تیز ہوگاتازہ مثال لیں، اسلام آباد کی کچی آبادی میں بھی صحت مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک سرکاری ڈاکٹر نے پرائیویٹ سینٹر بنا کر ایک دو دائیاں رکھ دی ہیں میری ملازمہ لڑکی کو حمل ٹھہرا میرے پاس آئی میں نے کہا جاؤ قریبی صحت مرکز میں ٹیسٹ کروالو ، واپس آئی کہنے لگی یورین ٹیسٹ میں تو پتہ چل گیا ہے مگر انہوں نے الٹرا ساؤنڈ بھی کیا ہے اور اس کے پندرہ سو روپے لئے ہیں میں نے کہا کس بات کے؟ بولی انہوں نے کہا بچہ بالکل ٹھیک ہے پھرمیں نے لڑکی کو سمجھایا کہ مہینے بھر بعد بچے کی نشوونما کا عمل شروع ہوتا ہے تمہارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اسی طرح اس کے شوہر کو اسپتال میں اپنی ماں کا ہفتے میں دوتین دفعہ ڈائلسز کروانا پڑتا ہے کئی دفعہ عملہ کہہ چکا بیٹے کو کہ یہ روز کا چکر چھوڑو اپنا ایک گردہ ماں کو دیدو تم چاہو تو تمھیں اس کے پیسے بھی ملیں گے ۔ شکر ہے اس نے مجھ سے مشورہ کرلیا پھر باز رہا۔
کہا گیا ہے کہ ملک میں لیڈر شپ کا بحران ہے اس سوال پر جواب کوئی خود ساختہ سیاست دان نہیں دے رہا کہ ہر ایک کی دال میں کالا ہے یہ ظلم اور بندہ پروری تو غلام محمد کےزمانےسے شروع ہوئی اور اب تو 55وزیروں کا ریلا ہے مگر چلتی تو مقتدرہ ہی کی ہے مگر بولنے کو ہر خود ساختہ لیڈر کہہ رہا ہے کہ ملک میں امن چاہتے ہیں اور ہر روز جوانوں کی شہادت کو کیش کرنے کیلئے جنازے میں جاتے ہیں۔ اس وقت چین جاپان اور جنوبی کوریا میں امن قائم کرنے کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے یورپین ملکوں میں بحث چل رہی ہے کہ دائیں سیاسی گروہ کو کیسے روکاجائے اور ہم 23؍مارچ کی تقریر میں انڈیا کا نام لے کر طعنہ زنی کر رہے ہیں۔ کہہ دینگےکہ تقریر تو آئی ایس پی آر والوں نے لکھی ہوگی توپھر افغانستان میں سال بعد رجوع کیوں کررہے ہیں اور تاجر لوگ کیوں سال بھر سے زور دے رہے ہیں کہ سارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سوفٹ بارڈر کریں تجارت اور آمد و رفت آسان کریں تبھی دہشت گردی کم ہو گی۔ چاروں ملک سیاست چھوڑ کر باہمی معیشت کیلئے ہموار اور سمجھدار لوگ سامنے آئیں ورنہ پھر یوکرین کی کیڑا زدہ گندم کھانا پڑے گی۔
انڈیا کے وزیر اعظم کا ایک انٹرویو بہت مقبول ہو رہا ہے جس میں وہ اپنا بچپن بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ساتویں کلاس میں ننگے پیر اسکول جاتے تھے۔ جب ایک رشتہ دار نے ان کو کرمچ کے سفید جوتے دیئے تو ان کو صاف رکھنے کیلئے روز اسکول ٹائم ختم ہونے کےبعد اسکول کے باہر ہر کمرے سے ٹوٹے ہوئے چاک کے ٹکڑے اٹھا کر گھر لیجاتے ان کو پانی میں بھگو کر اپنے سفید جوتوں کو اپنے ہاتھوں سے سفید چمک دار بناتے یہ اور بات ہے کہ انسانی محبت کےخلاف نفرت کہاں سے اور کس سے سیکھی؟؟؟؟۔ ہمارا ایک سیاسی شخص نہیں جو کروڑوں خرچ کئے بنا سیاست میں آیا ہو اور پھر کیسے کھل کھیلے کہ آج سعودی عرب کے بادشاہ کے بس پیر ہی نہیں پکڑے اور نہ یہ کبھی سوچا کہ جس طرح پرتگیزی اور ہر نسل کے لوگوں نے برصغیر میں گرم مصالحوں کے نام اور فصلوں کے برابر انگریزوں نےہمارے خزانوں کو خالی کر کے کہا ’’لو اب تم آزاد ہو‘‘۔ یہ الگ تاریخی حقیقت ہے کہ 1956ءتک پاکستان میں انگریزوں کے چھپے ہوئے فارموں پر ہمیں ریڈیو اور سرکار سے چیک ملتے تھے میں نے خود دس روپے کا چیک روشن آرا بیگم کے پاس دیکھا ہوا ہے۔
حکومت فی الحال منشیات ختم کرنے کا اس لئے سوچ رہی ہے کہ ارمغان اور اس کے والد کے جب سے پول کھلے ہیں توپھر آنکھیں کھلیں کہ مذہب کا نام لے کر کیسے ناجائز کھیل شروع دن سے پاکستان میں کھیلے جا رہے ہیں۔ تازہ واردات دیکھئے کہ آزاد کشمیر میں ایک اقلیتی طبقے کے قبرستان میں قبروں کے کتبے توڑے جا رہے ہیں۔ اب خدا کا نام لے کر میرے پیر و مرشد یہ بتائیں کہ پاکستان کےسوا کسی اور اسلامی ملک نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے۔ یہ بحث یہیں چھوڑ دیں مگر یہ تو بتائیں کہ پیکا کا قانون کن لوگوں پر اور کیوں لگایا جا رہا ہے۔
مجھے تو لکی ایرانی سرکس کو دیکھ کر پتاچلا کہ چاہے عیسائی لڑکے لڑکیاں ہوں کہ ہندو، سب مل کر کنویں میں موٹر سائیکل بھی چلا رہے ہیں گھوڑوں پر لڑکیاں نشانے بازی کر رہی ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا، چالیس سال سےچل رہی ہے تو انڈیا والے تو مسلمانون پر قدغنوں پر قدغنیں لگا رہے ہیں اور ہم کس خوشی میں کبھی دیوالی، کبھی ہولی کبھی بیساکھی، قومی سطح پر منارہے ہیں۔ مجھے یہ سب برا نہیں لگتا، امن اور برداشت کی نشانی ہے جوصحت مند ذہنوں کی آبیاری کرتی ہے۔ مگر انڈیا میں ہولی پر مسجدوں پر غلاف چڑھا دیئے جاتے ہیں اور اشک شوئی کیلئے پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن میں چند لوگ روزہ افطار کیلئے ہوٹل بک کراتے ہیں ہمارے پولیس والےاس افطار میں جانے والوں کا راستہ روکتے رہتے ہیں۔ یہ دوغلا پن ہمارے نوجوانوں کو عصبیت زدہ نفرتوں کے مجسمے بنا رہا ہے اور اسی انداز سے میڈیا چل رہا ہے ۔
میرے خیال میں ٹرمپ کی طرح ہم بھی سارے تعلیمی ادارے بند کردیں جہاں بچے نقل کر کےپاس ہوتے ہیں اور جہاں آج تک ضیاء کے دور کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ رمضان میں مہنگائی کوئی حکومت کم نہیں کروا سکی اب تو عراق اور مصر سے بھیک مانگتی پاکستانی عورتیں روز پکڑی جا رہی ہیں اور عمرے کے نام پر آئس منشیات لے جانے والے اپنا کام چلا رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ