خلقِ خدا کے دِلوں میں پَلتا اضطراب…نصرت جاوید

پاکستان جیسے ملکوں میں آباد رعایا روکھی سوکھی کھانے کی نسلوں سے عادی ہے۔ اس کی ’’خو‘‘ بھی بقول اقبال غلامانہ ہے۔ ’’ڈنڈے‘‘ کا خوف اسے کافی عرصہ خاموش بٹھائے رکھتا ہے۔ اس کے جی کو بہلانے کے لئے مگر جب فوجی یا منتخب حکومتیں جھوٹے خواب دکھانا شروع ہوجائیں اور یہ خواب یکے بعد دیگرے عمل پیرائی کی جانب بڑھتے دکھائی نہ دیں تو دلوں میں پلتا اضطراب قابومیں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں ایوب خان جیسی طاقتور حکومتیں اسی باعث زوال کو پہنچیں۔ پیپلز پارٹی آج تک 1988ء  کے بعد سے پنجاب کے ووٹر کا دل جیتنے میں اسی باعث ناکام ہورہی ہے۔ انکار و مزاحمت اس کی پہچان تھی۔ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اس کا اساسی نعرہ تھا۔ ان اصولوں سے دوری نے بھٹو کی بنائی جماعت کو سندھ تک محدود کردیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا وحشیانہ قتل بھی اس کی ملک گیر کشش بحال کرنے میں ناکام رہا۔
حکومتوں کے زوال کے اسباب بیان کرنے سے کالم کا آغاز کرنے کی بنیادی وجہ وہ مایوسی ہے جو سٹاک ایکس چینج کی گراوٹ نے پیر کے دن دکھائی ہے۔ وہاں مندی کا رحجان مسلط رہا۔ وجہ اس رحجان کی وہ مایوسی بتائی گئی ہے جو سرمایہ کاروں کو یہ خبر پڑھ کر محسوس ہوئی کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے حکومتِ پاکستان کو بجلی کے نرخوں میں کمی کی ’’اجازت‘‘ نہیں دی ہے۔ پراپرٹی کی مارکیٹ میں تھوڑی رونق لگانے کے لئے حکومت کی یہ خواہش بھی تھی کہ جائیداد کی خریدوفروخت پر عائد ہوئے ٹیکسوں کی شرح میں فقط 2فی صد کمی لائی جائے۔ آئی ایم ایف کے حکومتِ پاکستان سے رابطوں پر نگاہ رکھنے والے تمام معتبر رپورٹروں نے پیر کی صبح چھپے اخباروں کے ذریعے ’’بدخبری‘‘ یہ پھیلائی کہ نگہبان ادارے نے حکومتِ پاکستان کے دونوں مطالبے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ واضح الفاظ میں بلکہ اسلام آباد کو پیغام یہ دیا گیا کہ ایک ارب ڈالر کی قسط درکار ہے تو اس معاہدے کی ایک ایک شرط پر عمل کرنا ہوگا جو آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا ’’امدادی پیکیج‘‘ حاصل کرنے کے لئے تسلیم ہوئی تھیں۔
آئی ایم ایف کو اپنی مایوسی کایک وتنہا ذمہ دار ٹھہرانے سے قبل مگر دیانتداری سے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کا کلیدی مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان غیر ملکی قرض پر انحصار کے بجائے اپنے ہاں کے خوشحال طبقات سے مناسب حد تک واجب الادا ٹیکس وصول کرے۔ اس تناظر میں حکومت پاکستان نے مارچ 2025ء کے اختتام تک ٹیکس وصولی کے جو اعدادوشمار آئی ایم ایف کو فراہم کئے تھے ان کے حصول میں ناکام ہوئی۔ جو رقوم ٹیکس کے ذریعے جمع کرنے کا وعدہ ہوا تھا اب بجلی کی ناقابل برداشت قیمتیں برقرار رکھ کر اکٹھی کی جائیں گی۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمت کا بھی ہم پاکستانی فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے۔ پٹرولیم لیوی کے نام پر بلکہ پٹرول کا ایک لیٹر خریدتے ہوئے مزید دس روپے ادا کریں گے۔
ہمارے ہاں پٹرول کی قیمت ہر مہینے دو مرتبہ طے ہوتی ہے۔ عالمی منڈی میں اس کی قیمت کا رحجان دیکھتے ہوئے ہر 15دنوں بعد اس کے نرخ کا تعین ہوتا ہے۔ اب کی بار عالمی منڈی میں جاری رحجان کے برعکس فیصلہ ہوا۔ پرانی قیمت نہ صرف برقرار رکھی گئی بلکہ ’’نادیدہ‘‘ حکومتی ترجمانوں نے اپنی پسند کے ’’صحافیوں‘‘ کے ذریعے امید یہ بھی دلائی کہ پٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرنے کے بجائے اس میں دس روپے کا اضافہ درحقیقت بجلی کی قیمت میں کمی کی غرض سے کیا جارہا ہے۔ جو کہانی پھیلائی گئی وہ مجھ جیسے علم معاشیات سے قطعی نابلد جاہل کو سمجھ نہیں آئی۔
غریب دیہاڑی دار یا مجھ جیسے تن خواہ دار کو مہنگائی کے عذاب سے تھوڑا ریلیف دینے کا ارادہ ہو تو بجلی کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے بھی پٹرول کے نرخوں کے ذریعے یہ ’’ثواب‘‘ کمایا جاسکتا ہے۔ فرض کیا میں ہر مہینے پچاس ہزار روپے کماتا ہوں۔ اس آمدنی کے ہوتے ہوئے اگر میرے گھر آئے بجلی کے بل میں کمی نظر نہ بھی آئے تو پٹرول کے نرخوں میں کمی میرے لیئے سکھ کا ایک آدھ سانس لینے کا بہانہ بن سکتی تھی۔ پٹرول کے حوالے سے تاہم مجھ سے مزید دس روپے وصول کرنے کا اعلان ہوا اور اب بجلی کی قیمت بھی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف 1990ء  کی دہائی سے سیاست میں بہت متحرک ہیں۔ 1997ء کے انتخاب کے بعد ہمارے ملک کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوئے تھے۔ 2008ء  کے بعد سے کامل دس برس تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انہوں نے اپنی شہرت عوام کے ’’خادم‘‘ والی بنائی۔ میں بدنصیب اگرچہ تواتر سے متنبہ کرتا رہا کہ ’’ترقی‘‘ کا جو ماڈل وہ اپنارہے ہیں وہ دنیا میں ’’ٹاپ ڈائون‘‘ ماڈ ل کہلاتا ہے۔اس ماڈل میں ایک ’’نیک دل اور عوام کا خیر خواہ‘‘ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ٹیکنوکریٹ نما افسروں کی ایک وفادار ٹیم کے ساتھ ’’ترقی‘‘ کے چند منصوبے بناتا ہے۔ وہ مکمل ہوجائیں تو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی واہ واہ ہوجاتی ہے۔ ’’عوامی نمائندے‘‘ ترقی کے اس ماڈل میں لیڈر سے دور رکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے خلق خدا کے دلوں میں پلتے اضطراب کا ’’خادم‘‘ کو علم ہی نہیں ہوتا۔
’’ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے بعد‘‘ آج سے ایک برس قبل شہباز شریف صاحب نے جس پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے وہ معاشی اعتبار سے فیصلہ سازی کے لئے خودمختار ملک نہیں رہا۔ اسے اپنی معیشت کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ آئندہ تین سالوں میں عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ سات ارب ڈالر مختلف اقساط میں ادا کرے گا تبھی معاملات آگے بڑھیں گے۔ جن اقساط کا وعدہ ہے ان کے حصول کے لئے چند شرائط پر عمل ہر صورت درکار ہے۔ نجی صنعت کاروں کی جانب سے پیدا ہوئی بجلی پر جمع ہوئے ’’گردشی قرضے‘‘ کی جلد از جلد ادائیگی ان شرائط میں سرِفہرست ہے۔ اسی باعث ہمارے ہاں بجلی کے نرخ جنوبی ایشیاء ہی نہیں بلکہ دنیا کے بے تحاشہ ممالک کے مقابلے میں بھی مہنگے ترین ہیں۔ غیر ملکی قرضوں کی اقساط ہربرس ادا کرنا بھی ہمارے لئے ناممکن ہورہا ہے۔ ہم چین اور سعودی عرب جیسے ملکوں سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ قرضوں کی واپسی کا تقاضہ نہ کریں۔ انہیں کچھ عرصے کے لئے موخر کردیں۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے گرداب سے نجات کی واحد صورت پاکستان کے واقعتا متمول اور خوشحال افراد سے مناسب حد تک واجب الادا ٹیکسوں کی وصولی ہے۔ انہیں ہاتھ ڈالنے کی مگر حکمرانوں میں ہمت نہیں۔ سارا بوجھ غریب کی جانب منتقل ہورہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت