چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے بچے کے خرچ میں کئے گئے سالانہ اضافہ کو20فیصد سے کم کرکے 10فیصد کرنے کی استدعا مسترد کردی

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے بچے کے خرچ میں فیملی کورٹ کی جانب سے کیئے گئے سالانہ اضافہ کو20فیصد سے کم کرکے 10فیصد کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیا ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ۔ جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 50ہزار توبچے کے اسکول کی فیس ہے ، باقی روٹی ، کپڑا اوردیگر اخراجات الگ ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2رکنی بینچ نے منگل کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 24کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے بچے کے خرچ کے معاملہ پر ڈاکٹر عقیل وارث کی جانب سے ابراہیم عقیل وارث اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سابق جج لاہور ہائی کورٹ عبادالرحمان خان لودھی پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے سید قمر حسین سبزواری بطور وکیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ بچے کے خرچ کامعاملہ ہے۔ وکیل عبادالرحمان لودھی کاکہنا تھا کہ میں بچے کے خرچ سے انکار نہیں کررہا مجھے صرف 20فیصدسالانہ اضافہ کے فیصلے پر اعتراض ہے میں 10فیصد سالانہ اضافہ دینے کوتیارہوں۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ فیملی کورٹ، ایپلٹ کورٹ اور ہائی کورٹ نے20فیصد اضافہ کے فیصلے کوبرقراررکھا ہے، درخواست گزار کی سالانہ تنخواہ 65ہزار یورو سے زیادہ ہے جو کہ پاکستانی ایک کروڑ12لاکھ روپے بنتی ہے۔

چیف جسٹس کامدعاعلیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے مئوکلہ سے ہدایات لے لیں شاید وہ 10فیصد پرراضی ہوجائیں۔ اس پر وکیل مدعا علیہ کاکہنا تھا کہ ان کی بات بچے کی والدہ سے ہوئی تھی وہ 20فیصد سے کم پرراضی نہیں۔ وکیل عبادالرحمان لودھی کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے 20فیصد اضافہ کے معاملہ پر کچھ نہیں کہا، لگتا ہے کہ ہائی کورٹ نے فائل بند کرکے فیصلہ لکھوایا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نیچے دوعدالتوں نے اپنا مائنڈ اپلائی کیا ہے۔ وکیل عبادالرحمان لودھی کاکہنا تھا کہ عدالتوں نے 20فیصد سالانہ اضافہ کاکوئی جواز پیش نہیں کیا، عدالتوں نے 30ہزارماہانہ خرچ مقررکیااور 20فیصد سالانہ اضافہ کاحکم دیا۔ مدعاعلیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے خود اپنی تنخواہ کی سلپ عدالت میں پیش کی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عدالتوں نے اس حوالہ سے نہیں بتایا کہ 10فیصد کیوں نہیں کررہے اور 20فیصد کیوں کررہے ہیں۔ وکیل درخواست گزار کاکہنا تھا کہ سالانہ اضافہ کے ساتھ میں تقریباً48ہزار سے زائد رقم ماہانہ ادائیگی کررہا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بچے کی عمر کتنی ہے۔ اس پروکیل کاکہنا تھا کہ بچے کی عمر14سال ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کاکہنا تھا کہ 50ہزار توبچے کے اسکول کی فیس ہے ، باقی روٹی ، کپڑا اوردیگر اخراجات الگ ہیں۔ بینچ نے سالانہ 20فیصد اضافہ کے حوالہ سے فیملی کورٹ کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تین عدالتوں کے فیصلے میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ZS