مینار پاکستان آواز دے رہا ہے‘ : تحریر محمود شام’


اب ہندوستان پہلے سے زیادہ ہندو ہے۔ کیا پاکستان پہلے سے زیادہ پاک ہے؟ کیا مسلمان پہلے سے زیادہ مسلمان ہیں؟

آج اتوار ہے عام دنوں میں دوپہر کے کھانے پر اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کا دن۔ آج کل رمضان کے مقدس دن ہیں اتوار کی دوپہر والا سماں ہر روز افطار کے وقت میسر آرہا ہے بچے روزے رکھ رہے ہیں چمکتے چہرے تمتماتی پیشانیاں۔

آج 23 مارچ ہے ہم پاکستانیوں کیلئے بہت ہی اہم تاریخی دن۔ آج سے 85سال پہلے داتا کی نگری میں منٹو پارک میں ہم نے تاریخ کے ساتھ مفاہمت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یاد کیجئے کون کون سے رہنما اس وقت اسٹیج پر موجود تھے قرارداد کس نے پیش کی۔ ان کا تعلق کس خطے سے تھا وہ اکثریتی صوبہ تھا ۔آج وہ کہاں ہے ۔کیا پاکستان کی حدود میں ہے اور کیسے کیسے لوگ تھے اکابر تحریک پاکستان کے رہنماآج ان کے خاندان کے لوگ کہاں ہیں۔ اب پاکستان میں جو خاندان مسندوں صوبوں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان سے تعلق رکھنے والا کیا 1940کے نمایاں لوگوں میں بھی کوئی تھا یا نہیں، کیاکوئی وردی والا یا ان کے کنبے گھرانے والے ان میں شامل تھے ۔آج جو بڑے صنعت کار ہیں اشرافیہ ہیں کیا ان کا کوئی عزیز و اقارب 1940 کے ان رہنماؤں میں موجود تھا۔ تحریک پاکستان مشرقی بنگال میں چل رہی ہے بہار میں یو پی سی پی میں سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد جو پیش کر رہے ہیں اس عظیم ہستی کا کوئی پوتا نواسہ آج پاکستان میں کسی اعلیٰ عہدے پر ہے؟

کیا ہمارے محققین کو ہماری یونیورسٹیوں کو یہ تحقیق نہیں کرنی چاہیے کہ انگریز کے کانگریس کے مقابل جدوجہد کرنے والوں کے خاندانوں میں تسلسل کیوں نہیں رہ سکا؟ کیا وہ خود پاکستان کے حالات سے بیزار ہوئے؟ تحریک پاکستان کے مخالفین پھر سیاسی افق پر 1953سے کیوں غالب ہوتے چلے گئے۔ اس رد و بدل کے اسباب کیا ہیں۔ 1947میں قیام پاکستان کے بعد جو خاندان آگے آتے گئے بقول محسن بھوپالی جو شریک سفر نہ تھے انہیں منزل کیوں ملتی چلی گئی ۔کیا یہ کوئی حادثہ تھا یا کوئی منظم منصوبہ؟ ہم نے تاریخ سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے نکات جن خاندانوں نے تشکیل دیئے تھے اور جنوں نے اس خاکے میں رنگ بھرنا تھے وہ آہستہ آہستہ منظر سے کیوں ہٹتے چلے گئے؟ کیا یہ کوئی عالمی منصوبہ تھا؟

بھارت کی کانگریس جس نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اس نے تو وہاں تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کیلئے اعزازات بھی رکھے غریب خاندانوں کیلئے وظائف بھی۔ انہیں معاشرے میں عزت بھی دی۔ پاکستان میں وہ خاندان اپنے چھوڑے ہوئے گھر بار کے کلیموں میں سیٹلمنٹ کمشنروں کے دفتروں کے چکر کاٹتے رہے ۔

انڈیا نے دل سے پاکستان کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دو قومی نظریہ وہاں آج بھی پوری طرح فعال ہے۔ مسلمانوں پر خوشحالی کے دروازے آج بھی بند ہیں۔ امیر متمول مسلمان خاندان تو کچھ نمایاں ہیں لیکن عام مسلمان وہاں آج بھی با عزت روزگار سے محروم ہے۔ ہم نعرہ تو لگاتے ہیں کرش انڈیا مگر ہم ایسا صنعتی علمی زرعی یا ٹیکنیکل راستہ اختیار نہیں کرتے جس سے ہندوستان کو شکست دی جائے۔ انڈیا آج تک پاکستان کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ہمارے ہاں یہ تحقیق کیوں نہیں ہوتی کہ انڈیا کشمیر حیدرآباد دکن جونا گڑھ پر قبضے میں کامیاب کیوں ہوتا ہے؟ پھر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کو تقویت کیوں پہنچاتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس کی کوئی مذمت نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اربوں روپے کشمیر کمیٹیوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ انڈیا سے خطرے کے پیش نظر ہمارا دفاعی بجٹ ہماری بساط سے زیادہ ہوتا ہے لیکن انڈیا ہر جنگ میں جارحیت کرنے کے باوجود عالمی افق پر جا رح نہیں کہلاتا۔ ہمارا سفارتی بجٹ بھی ہمارے شہریوں کے پیٹ کاٹ کر بنایا جاتا ہے مگر ہم سفارتی محاذ پر بھی ناکام رہتے ہیں۔

ہم آج تک کشمیر پر بھارتی فوج کشی حیدر آباد دکن پر پولیس ایکشن کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔ اب ہندوستان پچھلی دو دہائیوں سے کہیں زیادہ متعصب ہندو ریاست بن چکاہے ۔عالمی افق پر وہ امریکہ کا بھی لاڈلا ہے روس کا بھی۔ وہ بڑے بڑے معاہدوں کا رکن بن رہا ہے خلا میں جا رہا ہے۔ صنعتی ترقی میں بھی بہت آگے ہے ۔شرح خواندگی بھی ،غیر ملکی سرمایہ کاری بھی بہت ہے۔ غربت مٹانے کی شرح بھی مناسب ہے۔

ہمارے ہاں پہلے سے زیادہ غربت ہے ۔صنعتی بدحالی ہے۔ ہمارا روپیہ ڈالر کے مقابلے میں بہت پستی میں مبتلا ہے۔ ہمارے ہاں آزادی کی مادر سیاسی جماعت مسلم لیگ تو نہ جانے کہاں گئی اب جو مسلم لیگ نون موجود ہے اس کا اس مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے فرقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک پاکستان سے پہلے کے اس خطے کے نواب، سردار اوراب نو دولتیے سیاسی افق پر غالب ہیں۔

23 مارچ 1940کو تاریخ سے مفاہمت کے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کیلئے جو عہد کیے تھے وہ آج کے حکمرانوں کے علم میں بھی نہیں ہیں ۔

23 مارچ ہم سب کا دن ہے ریاست کا مملکت کا دن ہے حکمرانوں کا نہیں۔ یہ ہمارے ان خوابوں کا دن ہے جو ہمارے اکابر نے سوسال پہلے دیکھے تھے اور جن کی تعبیر کے حصول کیلئے قائد اعظم کی قیادت میں پورے جنوبی ایشیا میں تحریک پاکستان چلی تھی۔ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلے گئے ہیں۔ آج 2025میں انگریز کا دور واپس آگیا ہے وہ اپنے ہاں برطانیہ میں تو فرد کی رائے کا احترام کرتا ہے مگر اپنی کالونیوں میں اظہار خیال پر پابندیاں لگاتا تھا۔ آزادی کا نعرہ لگانے والوں سے جیلیں بھرتا تھا وہ پنجاب سندھ بلوچستان سرحد کشمیر کہیں بھی عوام کے بجائے وہاں کے نوابوں سرداروں تمنداروں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط رکھتا تھا۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ ان معتبرین کیلئے ہم نے الیکٹبلز انتخابیوں کی اصطلاح چن لی ہے ۔لوگ جن نمائندوں کو مینڈیٹ دیتے ہیں ان کے بجائے ہم ان کو منظور نظر رکھتے ہیں یہ اپنے علاقوں میں تو بدترین ظالم سردار ہیں مگر اسلام آباد کراچی میں بہترین غلام ہیں ہر حکم بجا لانے والے اور جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والے۔

تاریخ سے کیا گیا معاہدہ85 سال کی گرد ہٹانے کیلئے آواز دے رہا ہے۔ مینار پاکستان پکار رہا ہے۔ ہمیں تعلیم، صحت، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ان 22 کروڑ کو آگے لے کر جانا ہے۔ اس عظیم مملکت کے ان دیانت دار محنت کش عوام کا مقدر ہمیشہ دہشت گردی، غربت، بدحالی اور اظہار خیال پر پابندیاں نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی رائے ریاست کے فیصلہ سازی کے نظام میں شامل ہونی چاہئے۔ 23مارچ کی روح یہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ