مودی حکومت نے نئی کشمیر میڈیا پالیسی کے نفاذ کے ذریعے آزادی صحافت پر پابندیاں عائد کی،جنیوا میں مقررین کا بنیادی آزادیوں کے تحفظ پر زور

جنیوا(صباح نیوز)اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب کے مقررین نے بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیاہے۔تقریب میں اسکالرز، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی وکلاء بشمول کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری ایڈوکیٹ پرویز احمد شاہ ، ظفر احمد قریشی اور ڈاکٹر شگفتہ اشرف شامل تھے۔

تقریب کی نظامت ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے صدر ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر نے کی۔ مقررین نے ڈیجیٹل اسپیس میں بنیادی آزادیوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون سے مطابقت رکھنے والی جامع پالیسیوں، ترقی اور قوانین کے  نفاذ پر زور دیا۔انہوں نے  ڈیجیٹل دور میں رازداری کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے، بڑھتی ہوئی نگرانی اور ڈیٹا کے غلط استعمال کے تناظر میں رازداری کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستوں کی ذمہ داریوں پر زور دیا۔شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 17کا حوالہ دیتے ہوئے،مقررین نے کہا کہ اس آرٹیکل میں افراد کو ان کی رازداری، خاندان، گھر، یا خط و کتابت میں جبری یا غیر قانونی مداخلت کو روکنے کی ضرورت پر زور دیاگیاہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانونی فریم ورک، بشمول کاروبار اور انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے رہنما اصول، ریگولیٹری نظام کو بڑھانے کے لیے اہم ہیں۔مقبوضہ کشمیر کاحوالہ دیتے ہوئے مقررین نے کہادفعہ370کی منسوخی کے بعد کشمیر کے ڈیجیٹل محاصرے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح بھارتی حکومت نے ڈیجیٹل اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ٹیکنالوجی فرموں کو فائدہ پہنچایا۔

انہوں نے کہاکہ مودی حکومت نے نئی کشمیر میڈیا پالیسی کے نفاذ کے ذریعے آزادی صحافت پر پابندیاں عائد کیں۔مقررین نے کشمیر میں انٹرنیٹ سروس کی معطلی کو کشمیری عوام کے ڈیجیٹل حقوق پر ایک اورظالمانہ حملہ قراردیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ ڈیجیٹل جبر بشمول انٹرنیٹ بلیک آئوٹ، سنسرشپ، نگرانی اور ہراسگی کو کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے اور معلومات تک رسائی کوروکنے کے لیے استعمال کیا گیا۔کشمیر میں سوشل میڈیا پروفائلنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابض حکام فون ٹریکنگ، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا سائٹس پر لوگوں کی گفتگو کی نگرانی کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس نگرانی کا مقصد کشمیری کارکنوں، صحافیوں اور ناقدین کی شناخت اور انہیں ہدف بنانا تھا ۔مقررین نے”جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ کا محاصرہ”کے عنوان سے جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگست 2019میں خطے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے فورا بعد بھارت نے مقبوضہ علاقے میں مواصلاتی بلیک آئوٹ نافذ کردیاتھا ۔