رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں ہر سو جلوہ گر ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے پہلا عشرہ رحمت مکمل ہو چکا، جب کہ دوسرے عشرے مغفرت کا آغاز ہو چکا ہے۔ گو کہ پورا رمضان ہی اللہ کی بے پایاں رحمتوں اور مغفرت کا مظہر ہے، مگر یہ عشرہ بالخصوص گناہوں کی معافی اور قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔
اسی عشرے میں عالمی یومِ یتامیٰ بھی منایا جاتا ہے، جو ہمیں معاشرے کے ان معصوم اور بے سہارا بچوں کی یاد دلاتا ہے جو والدین کے سائے سے محروم ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں جنگیں، قدرتی آفات، حادثات اور سماجی ناہمواریاں شامل ہیں۔ یتیم بچوں کی تعلیم، صحت، خوراک اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو اقوامِ عالم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
آج سے بارہ برس قبل دسمبر 2013 میں ترکیہ کے فلاحی ادارے آئی ایچ ایچ کی تجویز پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے 15 رمضان کو عالمی یومِ یتامیٰ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اسی تجربے کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم اداروں کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ملک کی نامور شخصیات نے یتیم بچوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ نتیجتاً پاکستان میں بھی 15 رمضان کو یتیم بچوں کے لیے مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں بچے یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد ماں اور باپ دونوں کے سائے سے محروم ہے۔ یہ معصوم بچے نہ صرف جذباتی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں بلکہ انہیں تعلیمی، معاشی اور سماجی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین ہر بچے کی زندگی کا وہ بنیادی جزو ہوتے ہیں جن کے بغیر دنیا کی ہر خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی تقریباً 50 لاکھ بچے یتیمی کا شکار ہیں، جن میں سے کئی بچے غربت، بے توجہی اور معاشرتی بے حسی کے سبب بھکاری مافیا، آرگن ٹریڈ اور انسانی اسمگلنگ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یتیموں کی کفالت ایک اہم فریضہ ہے اور ہمارے ہاں انفرادی و اجتماعی سطح پر اس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، تاہم اب بھی لاکھوں بچے مدد کے منتظر ہیں۔ ان کی معصوم آنکھوں میں امید کی کرن تبھی روشن ہو سکتی ہے جب معاشرہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنجیدگی سے لے۔
یتیم بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے اس میدان میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اور ان میں الخدمت فاؤنڈیشن نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک بھر میں ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کر رہا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا “آغوش” پروگرام یتیم بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے ایک قابلِ تقلید ماڈل ہے، جہاں نہ صرف انہیں رہائش، خوراک اور تعلیم کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں بلکہ ان کی ذہنی و نفسیاتی نشوونما کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔
اس وقت الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت 22 آغوش ہومز میں 2,059 یتیم بچوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے، جبکہ 29,926 یتیم بچوں کی گھروں میں مالی و تعلیمی معاونت جاری ہے۔
یہ بچے الخدمت آرفن کیئر پروگرام کے تحت ایک بہتر مستقبل کی تعمیر میں مصروف ہیں اور ملک و قوم کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ یتیم بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی ، اللہ تعالیٰ اْسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ رسول اکرم ﷺ نے تو یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا۔اگر ہم انفرادی سطح پر کسی یتیم بچے کی کفالت نہیں کر سکتے تو ایسے اداروں کے ساتھ تعاون ضرور کرنا چاہیے جو اس عظیم فریضے کو انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کا ایک حصہ ان معصوم بچوں کے لیے مختص کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں اور کسی بھی قسم کی محرومیت کا شکار نہ ہوں۔
آئیے، اس رمضان ہم عہد کریں کہ اپنے معاشرے کے ان بے سہارا بچوں کے لیے ایک مضبوط سہارا بنیں گے، ان کی ہمت بندھائیں گے اور ان کو یہ احساس دلائیں گے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
