“پاکستان کے مسائل کا واحد حل اقامت دین ہے”…تحریر حمیرا طارق

 ریاست پاکستان کی حالت اپنے چہرے کی رنگت سے غیر مطمئن اس لڑکی کی طرح بن چکی ہے جو کسی سفید اور چمک دار چہرے کو دیکھ کر اپنے چہرے کو بھی اسی طرح بنانے کے جنون میں مبتلا ہو جاتی یے۔ ایسی لڑکی ہر طرح کی کریمیں ، ابٹن ، ملتانی مٹی ، جڑی بوٹیاں اور دیگر ٹوٹکے استعمال کرتی رہتی ہے لیکن بجائے تبدیلی کے اپنی اصل رنگت کی قدرتی خوبصورتی کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ پاکستان کے چہرے کی مزید بد قسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں جو بھی شخص یا گروہ طاقت میں آتا ہے وہ پہلے سے ملی گئی کریموں کو اپنے کھردرے ہاتھوں سے خوب رگڑ کر صاف کرتا ہے اور پھر اپنی تیار کردہ کریمیں نئے سرے سے ملنا شروع کر دیتا ہے۔ اس نئی مشق ستم سے بے چارہ چہرہ رگڑ کی خراشوں اور غیر معیاری کریموں کی جلن سے مزید تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ جب اس مشق سے جان چھوٹتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بے چارہ چہرہ پہلے سے زیادہ داغ دار اور بد نما ہو چکا ہے ۔
کسی ملک میں بسنے والے افراد کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ملک میں ایسا نظام زندگی قائم ہو جائے جو نہ صرف اس نظام زندگی کے تحت بسنے والے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے قابل قبول ہو۔ بلکہ یہ نظام اپنی ڈومین میں بسنے والے تمام لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کے تحفظ کا ضامن بھی ہو۔ لیکن کس قدر بد قسمتی ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے پون صدی گزر چکی ہے لیکن ہم آج تک ایسے نظام زندگی کو وضع کرنے کے تجربات ہی کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ بلکہ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی اقوام نے بہت تھوڑے عرصے میں اپنے اپنے نظام ہائے زندگی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر کے ترقی کے سفر کا آغاز کیا اور ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم ابھی تک اپنے آغاز سفر کے قریب ہی بھٹک رہے ہیں۔ کبھی مغربی جمہوریت کی فلسفیانہ رعنائیوں اور زیبائشوں سے عارض و رخسار کو رنگنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی سوشلزم کے خیالوں کے دھنک رنگوں سے چہرے کی رنگ سازی شروع کر دی جاتی ہے۔ کبھی صنعت کار آ کر اپنے تیار کردہ لوشن اور کریمیں چہرے پر ملنا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی جاگیر دار اپنی جاگیروں میں اگائی گئی جڑی بوٹیوں کو چہرے پر رگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ہمارے ملک کا چہرہ عمومی طور پر کچھ اور طرح کے مہربانوں اور کرم فرماؤں کی گرفت میں بھی رہتا ہے ۔ جو کبھی پس منظر میں رہ کر اور کبھی براہ راست سامنے آ کر اس چہرے پر اپنی مرضی کی پلاسٹک سرجری اور بناو سنگار شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک نہایت افسوس ناک حقیقت ہے کہ اب تک کئے گئے اس طرح کے تمام تجربات سے ملک و قوم کے مقدر تو نہیں بدل سکے ۔ لیکن تجربہ کاروں کی اندرون و بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں ، اثاثے اور اربوں کھربوں کے بینک بیلنس وجود میں آتے چلے گئے ۔
غارت گری اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول ، غنچہ ، نہ کلی یے
اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان اہل ستم سے ملک کو نجات نہیں دلائی جاتی تو ڈر ہے کہ کہیں اس ریاست کا وجود ہی خطرے میں نہ پڑ جائے ۔ یہ بات بلا خوف تردید اور مکمل شرح الصدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارا اصل چہرہ بہت ہی خوبصورت ہے اور اس پر کسی قسم کی رنگ سازی اور ملمع کاری کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے چہرے کی اصل خوبصورتی اور رنگ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے ۔ یہ وہ کلمہ ہے جس کی بنیاد پر اس مملکت کا وجود عمل میں آیا تھا۔ اس کلمے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک اایسا ملک ہو گا جس کا نظام زندگی کلمہ لا الہ الا اللہ کے تقاضے اور دین اسلام کے مطابق ہو گا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آج ہم اس نظریے کے کس قدر قریب ہیں۔ سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ دین اسلام محض چند عبادات کی ادائیگی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک پورا نظام حیات ہے۔ اس میں عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات ، اخلاقیات ، تعلقات ، تعلیمات ، سیاسیات ، اقتصادیات ، اختیارات ، عدلیات ، تعزیرات ، اوامر و منکرات غرض زندگی کے ہر میدان میں احکامات الہیہ کی حدود و قیود کی پابندی شامل ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم ، زکوۃ و عشر کا جامع اور مدبرانہ نظام معیشت ، بلا تفریق عوام و خواص کے لئے عادلانہ نظام انصاف ، میرٹ کی بالا دستی ، انتظامی امور پر عاقلانہ اور مضبوط گرفت ، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ، عوام کے قانونی ، معاشی اور اخلاقی حقوق کا تحفظ یہ تمام امور دینی حدود میں شامل ہیں اور اللہ کی بندگی کہلاتے ہیں۔
اللہ کی اطاعت و بندگی کی حدود سے متضاد ایک دوسرا نظام زندگی بھی ہے جس کی بنیاد اللہ رب العزت سے بغاوت اور سرکشی پر قائم ہے۔ یہ نظام طاغوتی نظام زندگی کہلاتا ہے۔ لفظ طاغوت طغیان سے نکلا ہے۔ جس طرح دریا یا سمندر کے پانی میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے کناروں کو توڑ کر باہر نکل آئے تو پانی کی ایسی کیفیت کو طغیانی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایسی قوتیں اور رجحانات جو دین حق سے باغی ہو کر دینی حدود سے باہر نکل جائیں اور دین کے مقابلے میں اپنی مرضی اور طاقت نافذ کرنا شروع کر دیں تو یہ بھی طاغوت کہلائیں گے۔ ان رجحانات اور قوتوں کے بنائے گئے نظام کو طاغوتی نظام کہیں گے اور اس نظام کی اطاعت کو طاغوت کی اطاعت کہیں گے۔
اللہ تبارک و تعالٰی کے بتائے ہوئے دین میں زکواۃ و عشر کو نظام معیشت کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ زکوۃ و عشر کے نظام کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ امراء سے ان کی ضرورت سے زائد وسائل کا تھوڑا سا حصہ وصول کر کے ضرورت مندوں کو دیا جائے۔ اور سرمائے کے ارتکاز کو کم کیا جائے تا کہ معاشی مسائل پیدا نہ ہوں۔ اگر ہمارے ملک میں ایسا نظام قائم ہو جائے کہ تمام صاحب نصاب لوگ زکواۃ و عشر پورا پورا ادا کرنے لگیں تو عوام اور ریاست دونوں خوشحال ہو جائیں۔ جبکہ ہمارے ہاں اس کے بر عکس ملک میں سودی نظام معیشت رائج ہے۔ اندرون اور بیرون ملک قرضے سود کی بنیاد پر لیے اور دیے جاتے ہیں۔ بینکاری کا نظام سود پر قائم ہے۔ یہ نظام معیشت ہمارے ملک کے عوام کے تمام تر معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ اس نظام سے ملکی سرمایہ چند ہاتھوں میں سمٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔ امراء امیر تر ہونے لگتے ہیں اور غربت کی سطح بڑھنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کرنسی کی ویلیو کم ہوتی جاتی ہے اور مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ اسلام میں سود کو اس درجہ نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے کہ سود کو جاری رکھنا اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 2273 رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا “معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ مکانوں کی مانند (کشادہ اور بڑے ) تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹ کے باہر سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ۔ انہوں نے بتایا : سود کھانے والے۔”
ہمارے ملک میں شریعت کورٹ سود کو ختم کرنے کا حکم جاری کرتی ہے تو مسلم کا نام استعمال کرنے والی جماعت اور ملک کا وزیر اعظم سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے حکم امتناعی لے لیتا ہے۔ جو آج تک جاری ہے اور بقول سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل “سود 2028 میں بھی ختم نہیں ہوگا۔” پھر جب وہ صاحب اللہ کی گرفت میں آئے تو آج تک لوگوں سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ “مجھے کیوں نکالا؟” حضرت آپ نے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نظام کے مقابلے میں طاغوتی نظام کے لئے سٹے آرڈر لیا تھا اس لئے اللہ تعالی نے آپ کو نکالا۔
ہماری ریاست نے اشیاء کی خریداری پر اٹھارہ فی صد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کر رکھا ہے ۔ یہ ٹیکس بہت بڑی تعداد میں ایسے غریب اور نادار لوگ بھی ادا کرتے ہیں جو خود امداد اور عطیات کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایسے غریب اور نادار لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے ان تک حکومت کی طرف سے کوئی سہولت نہیں پہنچتی۔ بل کہ یہ رقم بھی چند مخصوص گروہوں اور علاقوں کے لئے تعیشات کی فراہمی پر خرچ ہو جاتی ہے۔
ظالمو! ذرا عوام کے دیے گئے ٹیکسز سے بنائی گئی عالی شان عمارتوں سے باہر نکل کر اور لگژری گاڑیوں سے اتر کر دیکھو تو سہی کہ تم کن کن لوگوں سے یہ ٹیکس وصول کر رہے ہو۔ یہ ٹیکس وہ لوگ بھی ادا کر رہے ہیں جو آج بھی گندے نالوں اور جوہڑوں کا پانی پی رہے ہیں۔ بلوچستان کے علاقوں نصیر آباد ، سبی ، ڈاڈر ، جعفر آباد ، پنجگور ، ڈیرہ مراد جمالی کے دیہات اور سندھ کے علاقوں جام شورو ، جیکب آباد ، گھوٹکی کے مضافات اور تھر کے صحراؤں میں جا کر تو دیکھو کہ کس قدر پسماندگی کا شکار لوگ تمہیں ٹیکسز دینے پر مجبور ہیں ۔ ان لوگوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ کس طرح کا نظام ہے کہ ریاست میں ایک طرف بہت بڑی اکثریتی آبادی کو کھانا پینا میسر نہ ہو اور دوسری طرف ایک محدود سا مقتدر طبقہ دنیا کی تمام تر سہولیات اور آسائشوں کا حق دار بن جائے۔ ایسا نظام اسلام تو کجا غیر مسلموں کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ کیوبا کا مشہور سوشلسٹ رہنما چی گویرا کہتا ہے کہ ” اگر کسی ریاست میں ایک فرد آٹھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی روٹی ، تعلیم ، علاج اور مکان نہیں خرید سکتا تو وہ ریاست نہیں بلکہ ایک عیاش طبقے کی جاگیر ہے۔”
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ مسائل کا شکار سفید پوش طبقہ اور شریف لوگ ہیں۔ منافع خور ، بھتہ خور ، غاصب ، ملاوٹ کرنے والے ، رشوت خور ، چور ، ڈاکو ، اور دوسرے حرام خور بلا خوف و خطر اور بلا روک ٹوک عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اور ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ معاشی عدم مساوات کا دائرہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے سے کسی کو کوئی غرض نہیں کہ معاشی عدم مساوات سے افراتفری ، بدامنی ، قانون شکنی ، انتشار اور بے اطمینانی جنم لیتی ہے۔ ایسی کیفیت سے ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہماری ریاست کو معاشی عدم مساوات کے بیانیے کے ہتھیار سے ہی دو لخت کیا گیا تھا۔ میرٹ کی پامالی اس ملک میں عام ہے۔ عوام کو سستا اور فوری انصاف میسر نہیں۔ مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ سہولیات کی فراہمی چند بڑے شہروں ، مخصوص علاقوں اور لوگوں تک ہی محدود ہے۔ مضافاتی اور پسماندہ علاقوں اور طبقات کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ کیا یہ سب مظالم اور حق تلفیاں اسی طرح جاری رہیں گی یا پاکستان کے عوام کو ان مظالم سے نجات ملے گی۔
یہ کلمہ لا الہ الا اللہ کا لایا ہوا نظام ہی ہے جو عوام کو ان مظالم سے نجات دلا کر حقیقی آزادی کی منزل تک پہنچائے گا۔ کیونکہ اس کلمے کا لایا ہوا نظام اتنا جامع ہے کہ یہ نہ صرف دنیاوی مسائل کا حل اور کامیابیوں کی ضمانت دیتا ہے بلکہ آخرت کی راحتوں اور کامیابیوں کی ضمانت بھی دیتا ہے ۔ ایک بات یقینی ہے کہ اس ملک کے محرومیوں کا شکار لوگ جو ستر فیصد سے بھی زائد ہیں وہ اگر اقامت دین کی کوشش کریں گے تو موجودہ نظام مزاحمت کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی نظام طاغوتی نظام کے خلاف ہے۔ تاہم عوام اگر متحد ہو جائیں تو مخالفت اور مزاحمت کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں مذہبی گروہوں ، علماء اور اہل بصیرت پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے مسلکی ، فروعی اور دیگر اختلافات کو چھوڑ کر اپنی قوت کو یکجا کریں اور اقامت دین کی منزل تک پہنچنے کے لئے قوم کی رہنمائی کریں۔ یاد رکھیں کہ تقسیم کرنے والے مسلکی اور فروعی اختلافات طاغوتی دھوکے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ “تقسیم کرو اور حکومت کرو” طاغوتی ہتھکنڈے ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام کے دلوں میں کلمے کی چنگاری موجود رہتی ہے اور یہ ایسی چنگاری ہے کہ کسی بھی وقت بھڑک کے آگ کے الاو میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ پھر اس الاو کے مقابلے پر آنے والے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ہماری اس طاقت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس سے کام لیا جائے۔ اس ملک کی مقتدر قوتوں پر بھی اقامت دین کا فرض عائد ہوتا ہے کیوں کہ کلمے کی چنگاری ان کے دلوں میں بھی موجود ہو گی۔ اگر آپ بھی اخلاص کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں تو اقامت دین کی منزل تک پہنچنا مزید آسان ہو جائے گا ۔ آخر میں قوم کے تمام افراد اور طبقات سے گزارش ہے کہ وہ اقامت دین کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنے اپنے حصے کا کام اور ذمہ داری ادا کریں تاکہ ہم دنیا کو اپنے چہرے کی اصل خوبصورتی دکھا سکیں۔
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

وقت یہ سب سے پوچھ رہا یے ، جہد و عمل کی منزل میں
کس کس نے تلوار اٹھائی ، کس کس نے آرام کیا