جعفر ایکسپریس‘ کے دہشتگردانہ اغوا نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کو لرزا دیا۔ مسلح افواج کے دلیرانہ اور جزئیات کی حد تک پختہ کار پیشہ ورانہ آپریشن نے بہت بڑی خون ریزی سے بچا لیا۔ فوج کے جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے، اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچائیں۔ دشوار گزار سنگلاخ پہاڑی سلسلوں میں، دہشت گردوں کے نرغے میں گھری جعفر ایکسپریس کے چار سُو رات کے اندھیرے گہرے ہو رہے تھے، سینکڑوں گھرانے اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے میں امیدوبیم کی صلیب پر لٹکے ہوئے تھے اور نیند سے عاری آنکھوں میں چنگاریاں سی بھر گئی تھیں جب رات دس بجکر بتیس منٹ پر، بانی پی۔ٹی۔آئی، عمران خان کے تصدیق شدہ ذاتی ایکس اکاؤنٹ سے ایک طویل بیان جاری ہوا۔ خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اور افغانستان کیساتھ تعلقات کے بگاڑ کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے بعد موصوف نے فرمایا… ’’خفیہ اداروں کا اصل کام، سرحدوں کا تحفظ اور دہشت گردی سے بچاؤ ہے۔ اگر وہ پولیٹکل انجینئرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کریگا؟‘‘ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے اور مسلح افواج کے آپریشن کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اپنی ’’اُفتاد‘‘ کی داستان سناتے ہوئے فرمایا … ’’میری اپنے بچوں سے بات نہیں کرائی جاتی۔ جیل مینوئل کے مطابق اپنی بیوی سے نہیں ملایا جارہا۔‘‘ یہ ہے اُس ’’پروجیکٹ عمران خان‘ کا تازہ ترین چہرہ جسے بڑی ہُنرمندی سے تراشا اور 25جولائی 2018ءکی رات کی اولیں ساعتوں میں آر۔ ٹی۔ ایس کی شہہ رگ دبوچ کر قوم پر مسلّط کیاگیا۔ علی الصبح جنرل آصف غفور نے ’’وتُعزُّ من تشاء وتُزِلُّ من تشاء‘‘ (وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے) کا شہرۂِ آفاق ٹویٹ کرکے اہل وطن کو یہ مژدۂِ جانفزا سنایا کہ ہم ایک مدّت سے جس شجرِآرزو، کو سینچ رہے تھے، وہ بالآخر پھل لے آیا ہے۔ یہ پھَل قوم وملک کو کس بھاؤ پڑا، اِسکا اندازہ سرِدست نہیں لگایاجاسکتا کیونکہ ’’صدقۂِ جاریہ‘‘ کی طرح یہ پروجیکٹ جانے کب تک ’صدمۂِ جاریہ‘ بن کر، عذابِ پیہم کی طرح ہم پر مسلّط رہے گا۔
معاشی امور پر گرفت رکھنے والے مبصر خُرّم حسین نے 13مارچ کو معروف انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں ایک چشم کُشا آرٹیکل لکھا۔ خُرّم کا کہنا ہے کہ افراط زر (مہنگائی) کی شرح میں بے تحاشا اضافے کا سلسلہ عمران خان کے دور میں شروع ہوا جب یہ شرح 38 فی صد تک پہنچ گئی۔ اُنکے اقتدار سے ہٹنے کے فوراً بعد یہ شرح نقطۂِ عروج پر پہنچ گئی لیکن عمران خان نے، اقتدار سے محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِسکا ملبہ آنے والوں پر ڈال دیا۔‘‘ اِسی آرٹیکل میں خُرّم حسین نے دو اور اقتصادی مبصرین کی آراکا حوالہ بھی دیا ہے جن میں سے ایک، حفیظ پاشا لکھتے ہیں کہ __’’2008 سے 2017تک عام پاکستانی کی قوّتِ خرید میں اوسطاً 3 فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔‘‘ حفیظ پاشا مزید کہتے ہیں __ ’’یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ آج ایک غریب پاکستانی ورکر کی قوّتِ خرید، اُس قوّتِ خرید سے بھی بہت کم ہے جو اُسے آٹھ سال پہلے (2017ءمیں) حاصل تھی۔ شاذونادر ہی دیکھاگیا ہے کہ غریب کارکنوں کی آمدنی/ قوّتِ خرید پر ایسی تباہ کُن ضرب لگی ہو۔‘‘ خُرّم حسین نے ایک اور معتبر اقتصادی مبصر، عادل منصور کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے اعدادو شمار کی مدد سے واضح کیا ہے کہ ’’اگر آنے والے مزید پانچ سالوں تک، عام پاکستانی کی اُجرت میں دس فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ کیاجاتا رہے، تو اُس کی قوّتِ خرید 2029ءمیں، اُس قوّتِ خرید کے برابر پہنچے گی جو اُسے 2017ءمیں حاصل تھی۔‘‘ کاش اِس امر کا بھی جائزہ لیاجائے کہ اگر 2017ء والا پاکستان، نوازشریف کی قیادت میں اُسی ثابت قدمی اور سُبک روی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا تو آج کہاں کھڑا ہوتا اور عام پاکستانی کے شب و روز میں کتنی بہتری آچکی ہوتی۔
اِس فتنہ ساماں ’’پروجیکٹ‘‘ نے پاکستان کی سیاسی، سماجی اور جمہوری اقدار پر کتنے چرکے لگائے اور باہمی نفرتوں کے کیسے کیسے خارزار کاشت کئے، اِس کا اندازہ لگانے میں کئی سال لگیں گے۔ 9مئی کی غارت گری کو خوش آمدید کہنے اور اِسے اپنے فدائین کا فطری ردّعمل قرار دینے کے مہینوں بعد پی۔ ٹی۔ آئی نے یہ پُرفریب بیانیہ تراشا کہ 9 مئی تو فوج کا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ خود فوج نے سینکڑوں فوجی تنصیبات پر حملے کئے، فضائیہ کے اڈوں پر کھڑے طیارے جلائے، شہداء کی یادگاروں کی بے حُرمتی کی اور الزام، آب زمزم میں دھلی، پاکیزہ ومعصوم پی۔ٹی۔آئی کے سر تھوپ دیا۔ اب تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ نے، جانے پہچانےاور معروف ایکس اکاؤنٹس سے کئے جانے والے پاکستان دشمن پروپیگنڈے سے لاتعلقی کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ ’’پی۔ٹی۔آئی، لاکھوں اکاؤنٹس کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔ لوگوں کو باہر بٹھاکر، پی۔ٹی۔آئی کا لبادہ اوڑھاتے ہوئے، دانستہ منصوبے کے تحت، اُن سے ٹویٹس کرائے جاتے ہیں۔ اُن کا پی۔ٹی۔آئی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ کوئی ہے جو اِس بے سروپا دلیل پر یقین کرے ؟ پی۔ٹی۔آئی کی کانِ نمک میں جاکر، نمک ہوجانے والے، اچھے خاصے خوش سلیقہ وشیریں کلام سلمان اکرم راجہ، لاکھوں اکاؤنٹس نہ سہی، صرف عمران خان ہی کا باضابطہ اور مصدقہ ذاتی ایکس کاؤنٹ بند کرا دیں جو ملک کے اداروں اور قومی سلامتی کے خلاف زہریلے پرپیگنڈے کا آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ اور اگر لاکھوں اکاؤنٹس بند نہیں کرائے جاسکتے تو کیا کھُل کر اُن کی مذمت بھی نہیں کی جاسکتی؟ کیا ایف۔آئی۔اے کے سائبر کرائم ونگ کو اُن کیخلاف شکایت بھی نہیں کی جاسکتی؟ اور کیا اُن جانے پہچانے فتنہ پردازوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی جو پی۔ٹی۔آئی کے بیانیے کو پروان چڑھانے کیلئے سرِشام اپنی چھابڑیاں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں؟’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ ایک ایسے عجیب الخلقت سانچے میں ڈھل چکا ہے جس کی کوئی نظیر قومی سیاست میں نہیں ملتی۔ کھیل کے میدان سے آئی۔ایم۔ایف کے دسترخوان تک، پاکستان کے حصے میں آنے والی ہر ناکامی پر اُن کے ہاں گھی کے چراغ جل اُٹھتے اور ہر کامیابی پر صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اُنکے دل ودماغ سے پاکستانیت رُخصت ہوچکی ہے۔ کڑے امتحان کے نازک لمحات میں بھی، عمران خان کا ٹویٹ، کسی طور قوم کے جذبات واحساسات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ اُس کے لفظ لفظ سے دہشت گردوں سے ہمدردی اور مسلح افواج سے بُغض کی بُو آ رہی ہے۔شرق وغرب کے تمام ممالک نے کسی تحفظ کے بغیر اِس مکروہ واردات کی مذمت کی یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی مذمتی بیان جاری کیا لیکن آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا، عمران خان کا ٹوئٹر خاموش ہے۔ نہ دہشت گردوں کے لئے کوئی کلمۂِ مذمت، نہ کامیاب آپریشن پر مسلح افواج کیلئے کوئی حرفِ تحسین۔ اُوپر سے ضد یہ کہ خان کو پیرول پر رہا کرکے آل پارٹیز کانفرنس میں لایا جائے ۔ موصوف وزیراعظم تھے تو بھی قومی سلامتی کے موضوع پر کسی ایسی کانفرنس میں نہیں جاتے تھے جس میں تمام پارلیمانی جماعتیں اور مسلح افواج کی قیادت موجود ہوتی ۔ دلیل یہ تھی کہ جہاں یہ چور اور ڈاکو بیٹھے ہوں گے، میں نہیں جاؤنگا۔ جنرل باجوہ ترلے ہی کرتے رہ جاتے ۔ کوئی پوچھے کہ کون سے فرشتوں کی ہم نشینی کے لئے آج یہ پیرول پر رہا ہونا چاہتے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ