فروری 2024 کے قومی انتخابات سے پہلے مجھے پاکستان کے تمام سابقہ انتخابات کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ جو الیکشن سے چند ہفتے قبل ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے اختتامی حصے میں چند آراپیش کی گئی تھیں۔ اولا یہ کہ نتائج کچھ بھی ہوں، پاکستان کے سیاسی بحران میں کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہوگی۔ جیسا کہ 1970 سے 2018 تک کے گیارہ انتخابات کے بعد ہوا، بارہواں قومی انتخاب بھی ملک کے دائمی سیاسی بحران کو حل کرنے میں ناکام رہیگا۔ البتہ میری رائے تھی کہ انتخابات کے متنازع ہونے کے باوجود، ماضی کی طرح نئی قومی اور صوبائی اسمبلیاں، کابینہ اور حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش کرینگی۔ البتہ، حکومت کی کارکردگی اور ملک کے معاشی حالت میں بہتری یا ابتری سے قطع نظر دائمی سیاسی بحران برقرار رہیگا۔ ان خدشات کے پیش نظر، میں نے یہ تجویز دی تھی کہ انتخابات سے آگے بڑھ کر پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں چند بنیادی تبدیلیوںپر توجہ دینی چاہئے۔یہی وہ ساختیاتی تبدیلیاں ہیں جو اس مقالے کا بنیادی موضوع ہیں۔ پاکستان کے سیاسی بحران کے تین بنیادی اسباب درج ذیل ہیں: پہلا سبب حکومت کے انتخابی اور انتظامی اداروں کے درمیان متنازع اور ناپائیدار تعلقات ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیاہے کہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج پر اکثر اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جو حکومت کی پائیداری کو متاثر کرتی ہے۔ دوسرا سبب یہ کہ زیادہ تر جماعتیں نظریاتی، تنظیمی اور جمہوری بنیادوں پر کمزور ہیں۔ ان میں داخلی جمہوریت کا فقدان اور مخصوص شخصیات کا غلبہ نمایاں ہے۔ تیسر ے سبب کا تعلق ایسے انتخابی قوانین سے ہے جو 50% ووٹروں کی حمایت کے بغیر حکومت سازی کی اجازت دیتیہیں۔ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں ان دائمی عوامل کے ساتھ ایک نیا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے۔ جس کا تعلق سماجی تبدیلی سے ہے۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کے باوجود، گزشتہ پچیس برسوں میں پاکستان کی معیشت میں مجموعی طور پر تیزی دیکھی گئی ہے۔ حالیہ دہائی میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں تقریبا دس گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ سماجی انقلاب ایک نئے سیاسی طبقے کو جنم دے رہا ہے، جو محض معاشی خوشحالی نہیں بلکہ اقتدار میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ لیکن اقتدار میں شرکت کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوا۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دائمی سیاسی بحران کے تین روایتی اسباب میں ایک چوتھا سبب بھی شامل ہو گیا ہے، جس کا تعلق سماجی تبدیلی اور اقتدار میں شرکت کی تمنا سے ہے۔ اس تبدیلی کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی موثر حل تجویز کیا جا سکتا ہے۔
عملی تجاویز : (1) آئندہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جائیں۔ متناسب نمائندگی کے ذریعے ابھرنے والی پارٹی کیلئیلازم ہوگا کہ یا تو وہ خود 50% سے زائد ووٹ لے یا اپنی ہم خیال جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے اس شرط کو پورا کرے۔ سیٹوں کی اکثریت اور ووٹوں کی اکثریت کا اہتمام کرنے سے قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجودہ صورتحال کی نسبت زیادہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گی۔ متناسب نمائندگی میں ہر پارٹی انتخابات سے پہلے اپنے امیدواروں کی فہرست، اولیت کے اصول پر جاری کرے گی، یعنی پارٹی جتنی سیٹیں جیتے گی، ان پر نمائندگی کے لیے پارٹی کے نامزد امیدوار ہی منتخب ہوں گے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں سیاسی پارٹیاں اپنی تنظیم پر پہلے سے زیادہ توجہ دیں گی۔ طویل عرصے سے ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں انتخابات کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر استوار کرنے کے مطالبے کو اپنے منشور میں شامل کرتی رہی ہیں۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے اس مطالبے کی قبولیت ہو جائے گی۔مزید یہ کہ کسی بھی عملی تجویز کی تفصیلات طے کرنے کے وقت مختلف جزئیات پر مختلف آراسامنے آ سکتی ہیں، جن پر باہمی مشورے سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔2۔ہر صوبائی اسمبلی کے ساتھ ایک سینیٹ قائم کی جائے، اسی طریقے پر جس پر قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ موجود ہے۔ تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ آبادی رکھتے ہیں۔ ۔ مثال کے طور پر، بلوچستان آبادی کے لحاظ سے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک تینوں سے بڑا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بعض ڈویژن ان یورپی ممالک سے زیادہ کثیر آبادی رکھتے ہیں جنہیں ہم جمہوریت کا معیار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے اس پس منظر میں، ہر صوبے کے تمام ذیلی علاقوں کی نمائندگی کو موثر بنانے کے لیے موزوں سینیٹ تشکیل دی جائے۔ پنجاب میں کم از کم چھ، سندھ میں کم از کم چار، خیبرپختونخوا میں کم از کم چار اور بلوچستان میں کم از کم تین ایسے یونٹ موجود ہیں جن پر مشتمل سینیٹ تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اس تجویز کے ذریعے صوبوں کے تمام ذیلی حصوں میں حکومتی اخراجات، آمدنی، اور سہولتوں کی فراہمی کے فیصلوں میں اتفاق رائے ممکن ہوگا۔3۔ پاکستان کے کثیر آبادی صوبوں کے انتظامی معاملات میں آسانی، وسائل کے بہترین استعمال اور کفایت شعاری کے لیے صوبوں کے تمام ایسے یونٹ، جو صوبائی سینیٹ میں نمائندگی کے اہل قرار پائیں، انہیں ایک میٹروپولیٹن حکومت کا درجہ دیا جائے، جس کا اپنا ایک میئر ہو۔ ایسے یونٹ اپنے جغرافیائی دائرے میں رہتے ہوئے انتظامی اور مالی معاملات کے ضوابط بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 25ایسے یونٹ تشکیل دیے جائیں تو ہر یونٹ میں اوسطا ایک کروڑ افراد ہوں گے، کہیں زیادہ اور کہیں کم۔ ان یونٹس کو اپنے انتظامی معاملات کی کاروباری ذمہ داری سونپنے سے جوابدہ حکومت کا تصور قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر انتظامی حکومت اپنی آمدنی اور اخراجات کو اپنے مکینوں کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ترتیب دے سکتی ہے۔
