فلسطین میں اسرائیلی جارحیت مزید بے لگام ہو چکی ہے۔ ماہرین اقوامتحدہ

 اقوم متحدہ (صباح نیوز)اقوام متحدہ کے ماہرین نے شمالی غزہ کے ہسپتال پر اسرائیل کی کھلی جارحیت کی مذمت کی ہے  اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مقررکردہ دو آزاد ماہرین نے ایک بار پھر اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ شمالی غزہ کے آخری فعال ہسپتال کمال عدوان پر اسرائیلی جارحیت سے خوف زدہ ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ نسل کشی کے ایک سال سے زیادہ عرصے سے، غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں ہسپتالوں پر اسرائیل کی کھلی جارحیت مزید بے لگام ہو چکی ہے۔یہ مشترکہ بیان فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی آزاد نمائندہ خصوصی فرانسسکا البانیس اور صحت کے حقوق سے متعلق خصوصی نمائندہ تلالینگ موفوکینگ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے کہا کہ وہ حسام ابو صفیہ کی گرفتاری پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور ڈاکٹر کو قابض افواج نے ہراساں کیا، اغوا کیا اور اپنی من مانی کرتے ہوئے حراست میں لے لیا۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ آزاد ماہرین ہیں لیکن ان کے بیان کو عالمی ادارے کا موقف نہیں سمجھا جاتا۔ماہرین نے ان تشویشناک رپورٹس پر بھی روشنی ڈالی جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فورسز نے مبینہ طور پر ہسپتالوں کے قریب کچھ افراد کو ماورائے عدالت سزائے موت دی ہے، جن میں ایک فلسطینی شخص بھی شامل ہے جس کے پاس مبینہ طور پر سفید جھنڈا تھا۔

انہوں نے غزہ میں وزارتِ صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کواسرائیلی حملے کے بعدسے فلسطین کے ایک ہزار 57 ڈاکٹرز شہید ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب جنیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس بیان کو حقیقت سے بہت دور قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔اسرائیلی مشن نے کہا ہے کہ یہ (بیان) اہم حقائق کو نظرانداز کرتا ہے ۔

 اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ غزہ میں
 انسانی حقوق کی تباہی پوری دنیا کی نظروں کے سامنے جاری ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے پہلے سالانہ ہنگامی اجلاس میں ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں اور غزہ میں صحت کے بحران پر تبادلہ خیال کیا۔
ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں شرکت کرنے والے  اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ،ترک نے کہا کہ “غزہ میں انسانی حقوق کی تباہی دنیا کی نظروں کے سامنے جاری ہے۔ اسرائیل کے جنگی آلات اور طریقہ کار سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے  اور خطے میں وسیع پیمانے کی  تباہیاں  ہوئیں۔انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ غزہ میں بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور تنازعات کے دوران اسپتالوں کا تحفظ ضروری ہے، “غزہ میں اسپتالوں کی مسماری فلسطینیوں کی حفظان صحت کی خدمات تک رسائی کے حق کو چھیننے کے مترادف ہے۔ ان اسپتالوں نے بے آسرا  ہزاروں لوگوں کو پناہ فراہم کی ہے۔

ترک نے کہا کہ “طبی تنصیبات کی جان بوجھ کر تباہی اجتماعی سزا کی شکل میں ہو سکتی ہے، اگر یہ شہری آبادی کے خلاف وسیع یا منظم حملے کا حصہ ہے تو یہ جنگی جرم تصور کیا جا سکتا  ہے، اور اس طرح کے اقدامات انسانیت  سوز  جرائم  کے زمرے میں آسکتے ہیں۔وولکر ترک نے غزہ میں ہسپتالوں، صحت کے بنیادی ڈھانچے اور طبی عملے پر ہونے والے تمام حملوں کی “آزاد، جامع اور شفاف” تحقیقات کا مطالبہ کیا۔یہ مشترکہ بیان فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی آزاد خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز اور صحت کے حق سے متعلق خصوصی نمائندہ تللینگ موفوکینگ کی طرف سے تھا۔

جنیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس بیان کو “حقیقت سے بہت دور” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا، “اس بیان میں تنقیدی حقائق اور حماس کی طرف سے فوجی مقاصد کے لیے شہری بنیادی ڈھانچے کے استحصال کے وسیع تناظر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔”اسرائیلی مشن نے کہا کہ فوج نے “شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی”۔

اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ “اس کے اقدامات بین الاقوامی قانون اور شہری بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے عزم کو انتہائی مشکل حالات میں بھی نمایاں کرتے ہیں۔اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس نے 20 سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 240 سے زائد کو حراست میں لے لیا جن میں ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ بھی شامل ہیں۔ انہیں حماس کا مشتبہ مزاحمت کار بتایا گیا ہے۔اپنے بیان میں البانیز اور موفوکینگ نے ابو صفیہ کی حراست پر “شدید تشویش” کا اظہار اور ان کی “فوری رہائی” کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور ڈاکٹر کو قابض افواج نے ہراساں کیا، اغوا کیا اور من مانی طریقے سے حراست میں لے لیا۔یہ عمل اسرائیل کی طرف سے غزہ میں حقوقِ صحت کو مسلسل بمباری کا نشانہ بنانے، تباہ اور مکمل طور پر ختم کرنے کے نمونے کا حصہ ہے۔یہ خصوصی نمائندگان اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ آزاد ماہرین ہیں لیکن عالمی ادارے کی جانب سے بات نہیں کرتے۔

ماہرین نے “پریشان کن اطلاعات” پر بھی روشنی ڈالی کہ اسرائیلی افواج نے مبینہ طور پر ہسپتالوں کے قریب بعض لوگوں کو ماورائے عدالت سزائے موت دی ہے۔ ان میں ایک فلسطینی شخص بھی شامل تھا جس کے پاس مبینہ طور پر امن کا سفید پرچم تھا۔انہوں نے غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے صحت اور طبی شعبے کے کم از کم 1,057 فلسطینی پیشہ ور افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔