نیا سال مبارک ہو۔ سب کا بھلا سب کی خیر مانگتے ہوئے بھی لیکن مجھے اس سال حالات بہتر ہونے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ ہم ایک پروگرام میں بندھ چکے ہیں۔ مقصداس پروگرام کا ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچالینے کے بعد استحکام و خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ مذکورہ اہداف کے حصول کے لئے حکومت پاکستان کو ’’جگوں‘‘ کی طرح تقریباََ ہر پاکستانی سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ ’’نان فائلر‘‘ نام کا شخص ملک میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔
علم معاشیات کی مبادیات سے بھی نابلد ہونے کی وجہ سے میں ہرگز اس قابل نہیں کہ آپ کو بتاسکوں کہ ’’ٹیکس نیٹ‘‘ کوو سیع بنانے کے لئے جو اقدامات لئے جائیں گے وہ ہمارے بازار کس طرح ہضم کریں گے۔ ہمارے ’’بازار‘‘ جسے عہد جدید میں ’’مارکیٹ‘‘ کہتے ہیں ریاست کو ’’اپنا‘‘ تصور کرنے کے کبھی عادی نہیں رہے۔ اپنی دولت سرکار سے ہمیشہ چھپاتے رہے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ’’ہنڈی‘‘ نامی ’’غیر رسمی بینکنگ‘‘ کا آغاز بھی سنا ہے ہمارے ہی خطے سے ہوا تھا۔ بے تحاشہ محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ موہن جودڑو کی تہذیب سے چند مہرنما تحریریں درحقیقت اس دور کے ’’چیک‘‘ تھے۔ ان میں سے چند مہریں عراق کے کئی شہروں میں بھی دریافت ہوئی تھیں جو ان کے ’’تجارتی استعمال‘‘ کی تصدیق کرتی ہیں۔
موہن جودڑو تو ہزاروں سال پرانی ثقافت تھی۔ 1840ء کی دہائی مگر کئی حوالوں سے حالیہ تاریخ کہی جاسکتی ہے۔ اس دہائی کے دوران برصغیر ہند وپاک پر اپنے قبضے کو مضبوط ومزید پھیلاتے ہوئے بھی برطانوی سامراج نے شاہ شجاع کو کابل کے تخت پر بٹھانے کی کاوش شروع کردی۔ پنجاب کے رنجیت سنگھ نے برطانوی افواج کو اپنے زیر نگین علاقوں سے گزرنے نہیں دیا۔ وہ سندھ اور بلوچستان کے ذریعے افغانستان کا رخ کرنے کو مجبور ہوئیں۔ شاہ شجاع کی کابل کے تخت پر بحالی اس زمانے کا بہت بڑا سامراجی پراجیکٹ تھی۔ اس کی تکمیل کیلئے بے تحاشہ سرمایہ بھی درکار تھا۔ اس کے حصول کے لئے ہمارے سندھ کے شکارپور شہر میں آباد ہندو ساہو کاروں سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے قبل بنگال پر قابض ہونے کے لئے برطانوی سامراج نے نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے لئے جو فوج تیار کی تھی اس کی بھرتی اورتنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی بھارتی گجرات کے ساہوکاروں سے رقوم ادھار لینا پڑی تھیں۔ انگریز مگر ہمارے دولت مند افراد کو ’’ٹیکس نیٹ‘‘میں لانے میں کامیاب نہ ہوپایا۔ زرعی زمینوں ہی سے ’’مالیہ‘‘ کا حصول اس کی ترجیح رہی۔ اسی باعث ڈپٹی کمشنر کو ’’کلکٹر صاحب‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔
مالیہ وصول کرنے کی خاطر ہی برطانوی سامراج نے ہمارے خطے کے جنگلوں کو ’’صاف‘‘ کرنے کے بعد ایک وسیع تر نہری نظام کے ذریعے وہاں ’’نقد آور اجناس‘‘ اْگانے کے لئے زرعی رقبے تیار کئے۔ لائل پور اور منٹگمری وغیرہ میں یہ رقبے اپنے وفاداروں میں بانٹے اور پنجاب کو پورے برصغیر کا ’’اناج گھر‘‘ بنادیا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ لڑنے کے لئے سپاہی بھی وہ ہمارے بارانی علاقوں سے جمع کرتا رہا۔ قصہ مختصراپنے طویل دور اقتدار میں سامراج نے ’’مارکیٹ‘‘ نامی شے متعارف کروانے سے گریز کیا۔ وہ متعارف ہوجاتی تو شاید ہمارے ہاں کے شہری متوسط طبقے کو ٹیکس دینے کا عادی بنایا جاسکتا۔ بہرحال پاکستان کو اب ’’جدید ریاست‘‘ بنانے کا فیصلہ ہوگیا ہے جہاں کے باسیوں کو ٹیکس تو ہر صورت ادا کرنا ہوں گے مگر اسکے عوض انہیں وہ حق فراہم کرنے کا وعدہ نہیں ہورہا جو ٹیکس گزار کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی جانب سے دی رقم کے خرچ کا حکمرانوں سے حساب لے سکے۔
وہ جسے ’’جمہوری نظام‘‘ کہا جاتا ہے اس کی بنیاد ہی یہ نعرہ تھا کہ جب تک عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو مطلق العنان بادشاہ ریاستی اخراجات کا حساب لینے کا حق نہیں دیں گے، ان کی رعایا ٹیکس ادا نہیں کرے گی۔ بادشاہ مذکورہ نعرے کے ہاتھوں بے بس ہوئے تو ’’ہائوس آف کامنز(House of Commons)‘‘ جیسے ادارے بنے جنہیں ہمارے ہاں قومی اسمبلی اور بھارت میں ’’لوک سبھا‘‘ کہا جاتا ہے۔ منتخب حکومتوں کا بجٹ ان اداروں میں پیش ہوتا ہے۔ ان کی منظوری کے بغیر اسے لاگو کیا نہیں جاسکتا۔ حکومت ہم سے ٹیکس وصول کرنے کے بعد اسے جس انداز میں خرچ کرتی ہے اس کا آڈٹ یعنی حساب کتاب ہوتا ہے۔ جو حساب کتاب ہوتا ہے اسے آڈیٹر جنرل قومی اسمبلی کے روبرو رکھتا ہے۔ آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لینے کے لئے ’’پبلک اکائونٹس کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ہاں کا متوسط طبقہ ’’اچانک‘‘ جمہوریت کا دیوانہ ہوا محسوس ہورہا ہے۔ روایتی میڈیا کے لئے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر کالم لکھنے والے مجھ جیسے قلم گھسیٹ افراد کو یہ طبقہ ’’بکائو‘‘ اور ’’لفافہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ ان کے طعنے سرآنکھوں پر۔ حقیقی جمہوریت کو بے تاب اس طبقے کو مگر خبر ہی نہیں کہ فروری2024ء کے انتخابات کے بعد آئی قومی اسمبلی ابھی تک پبلک اکائونٹس کمیٹی کا قیام بھی عمل میں نہیں لاپائی ہے۔ مذکورہ کمیٹی کے بغیر موجودہ نظام کو ’’ہائی برڈ‘‘ پکارنے کا جواز مل جاتا ہے جو ایسی طرز حکومت کی نشاندہی کرتا ہے جو تیتر ہے نہ بٹیر۔ جمہوریت شاعروں کے محبوب کی کمر کی طرح ’’ ہے کہ نہیں ہے‘‘۔ ایسے دونمبر نظام کے تحت جب وزیر خزانہ اور ان کے ’’راجہ ٹوڈی مل‘‘ سینہ پھلاکر ’’ٹیکس نیٹ‘‘ بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو میرا پنجابی والا ’’ہاسا‘‘ چھوٹ جاتا ہے۔
فروری 2024ء کے بعد قائم ہوئی حکومت کو مگر ہائی برڈ نظام کے استقلال کا واحد ذمہ دار ٹھہرایانہیں جاسکتا۔ گزرے برس کے اس مہینے میں جو انتخاب ہوئے تھے وہ بے تحاشہ حوالوں سے ہرگز ’’صاف وشفاف‘‘ نہیں تھے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف ہزاروں مشکلات کے باوجود ان کی بدولت واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری۔ اس کا فرض تھا کہ واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں حکومت سازی پر اپنے حق کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیگر جماعتوں سے رابطے استوار کرتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے اسے ایسی ہی حمایت مل سکتی تھی جیسی ان دنوں شہباز شریف کی حکومت کو میسر ہے۔ ’’مرغے کی ایک ٹانگ پر‘‘ اصرار کرتے ہوئے مگر تحریک انصاف نے اپنے حق کو بچگانہ انداز میں نظرانداز کردیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود وہ موجودہ قومی اسمبلی ہی میں حکومت کو دیوار کے ساتھ لگانے کو مجبورنہیں کرپائی ہے۔ اس کے اراکین قومی اسمبلی کے اجلاس میں دھواں دھار تقاریر کے بعد گھر چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد پر چڑھائی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ مگر بحال نہیں ہوئی اور تحریک انصاف کے بانی بھی جیل سے رہا نہیں ہوپائے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی تحریک انصاف حکومت کے ساتھ جن مذاکرات میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے اس کے انجام پر ہمیں جمہوریت کی کوئی بہتر اور قابل برداشت صورت نصیب ہو۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت