معاشرتی ’’اُڑان‘‘ آخر کب؟…انصار عباسی


ایک خبر کے مطابق صرف کراچی میں گزشتہ چار سال میں خلع کے مقدمات کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔ سال 2020 میں کراچی کی فیملی کورٹس میں 5 ہزار 8 سو 45 کیس دائر ہوئے، 2021 میں دائر ہونے والے ان کیسوں کی تعداد 8 ہزار تھی، 2022 میں یہ تعداد 8 ہزار 467 رہی، 2023 میں اس نوعیت کے 8 ہزار5 سو کیس دائر ہوئے جبکہ 2024 میں خلع کے جو مقدمات دائر ہوئے اُن کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر گئی۔خبر کے مطابق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 30 سےزیادہ خلع کے کیس عدالتوں میں دائر کیے جا رہے ہیں جبکہ چار سال پہلے یہ شرح 16 کیس یومیہ بنتی تھی۔یہ خبر نہ تو حکمرانوں کی توجہ حاصل کر سکی ،نہ ہی اسے میں نے کسی ٹاک شو میں موضوعِ بحث بنتے دیکھا۔ عمومی طور پرپارلیمنٹ اور ہمارے سیاستدانوں کو ویسے ہی ان معاملات میں دلچسپی نہیں۔ اگرچہ خلع کے مقدمات میں اضافے کی وجوہات اس خبر میں بیان نہیں کی گئیں لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر معاشرےکو توجہ دینی چاہیے۔ شادی اور خاندان کے نظام کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیوں کہ ہمارا معاشرہ مغرب کی اندھی تقلید میں ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور جو بچا کھچا ہمارے پاس رہ گیا ہے اُسے خراب کرنے میں ایک طرف پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار ہے تو دوسری طرف ریاست کی ان معاملات میں سردمہری نے حالات کو بہت خراب کر دیا ہے۔ ایسے عوامل جو چاہے کتنے ہی خوبصورت نعروں میں لپیٹ کرپیش کیے جا رہے ہوں مگر خاندانی نظام اور شادی جیسے اہم بندھن کیلئے خطرہ ہوں تو اُن کی حوصلہ شکنی کرنا ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد اور سیاسی و سماجی تنظیموں کی ذمہ داری ہے۔ مغرب میں خاندان اور شادی جیسی اہم بنیادی معاشرتی اقدار کو بدترین تباہ حالی کا سامنا ہے اور اس تباہی کا سبب بننے میں ترقی، انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر جو کچھ وہاں جو ہو رہا ہے اور جس کی ہم بلا سوچے سمجھے تقلید کر رہے ہیں اُس کے آگے بند باندھنا لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رواج یا روایات کے نام پر ہمارے معاشرےمیں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جو ہمارے اپنے دین کی تعلیمات کے منافی ہیں اورجس کا شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں اُنہیں بھی دور کرنا ضروری ہے۔ اس کیلئے سب سے اہم کردار وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ہے جنہیں ایک طرف بے لگام میڈیا بشمول سوشل میڈیا کو حدود میں رکھنا ہےتو دوسری طرف معاشرےکی تربیت کا ایک نظام وضع کرنا ہو گا تاکہ ہم ایک بہترین اسلامی معاشرےکی صورت اختیار کر سکیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو مغرب کی خرافات سے پاک بھی ہو اور جس میں کسی رواج اور روایت کی بنیاد پر کسی بھی فرد کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔ بحیثیت قوم ہم معاشرتی طور پر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہیں اور قسم قسم کی خرابیاں یہاں پیدا ہو چکی ہیں۔ ہم اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کے برخلاف چل رہے ہیں، مغرب کی برائیوں کو اپنا رہے ہیں،خوبیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں اعتبار کے قابل نہیں رہے۔ جھوٹ ، فراڈ، بے ایمانی کون سی خرابی ہے جو ہم میں نہیں۔ اپنے معاشرے کی اس گراوٹ کو روکنے کیلئے ہمیں ایک معاشرتی ’’اُڑان‘‘ کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے ایک پانچ سالہ منصوبے کا افتتاح کیا جسکا نام ـ’’اُڑان پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ میری دعا ہے کہ پاکستان کی معیشت یہ اُڑان لے لے۔ یہاں وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو ایک بہترین قوم بنانے کیلئے بھی ایک اور اُڑان کا منصوبہ بنائیں جس کا مقصد معاشرےکی اخلاقی اقدار اور کردار کو سدھارنا ہوتاکہ ہم اچھے انسان اور اچھے مسلمان کے طور پر جانے اور پہچانے جائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ