’’ڈاکٹر جب تم میرے کان کھولو۔ بہت ہی نرمی سے
اس میں کہیں کہیں میری ماں کی آواز رینگتی ہے
ماں کی آواز کی گونج میرا توازن درست کرتی ہے
جب میرے اعصاب متزلزل ہوتے ہیں
جب مجھے چکر آنے لگتے ہیں
ممکن ہے تمہیں وہاں عربی نغموں سے دوچار ہونا پڑے
کچھ نظمیں انگریزی میں سنائی دیں، جو میں خود کوسناتی ہوں
یا وہ گیت جو میں اپنے پائیں باغ میں چڑیوں کو سناتی ہوں
جب تم میرے زخموں کی سلائی کرو، تو یہ سب گیت واپس میرے کانوں میں رکھنا نہ بھول جانا
اس سلیقے سے تم کتابیں الماری میں رکھتے ہو
ڈرون طیاروں کی بھنبھناہٹ، ایف 16 کی گھن گرج
کھیتوں، مسجدوں، گھروں پر گرتے بموں کی دھاڑ
اڑتے راکٹوں کی سنسناہٹ
میرے ننھے سے کان کو ان سب سے پاک کردینا
ٹانکوں پر اپنی مسکراہٹ کی خوشبو چھڑک دینا
مجھے جگانے کے لیے زندگی کے نغموں کا انجکشن لگانا
ڈرم بہت ہلکے ہلکے سے بجانا تاکہ میرا ذہن تمہارے ذہن کے ساتھ رقص کرسکے
میرے مسیحا، دن رات۔‘‘
معصب ابو طحہٰ کی نظم۔ وہ چیزیں جو ڈاکٹر کو میرے کانوں میں نظر آئیں گی۔
2024، سال بھر یہ آوازیں، یہ گیت نقش کرتا رہا
اکیسویں صدی، ذہانت کی صدی،اطلاعات کی صدی، انسانیت کو آپس میں مربوط کرنے کیلئے ایجادات ہورہی ہیں۔ آلات تیار کیے جارہے ہیں، خلائوں کی تسخیر ہورہی ہے، مریخ پر جانے کی تیاریاں ہیں، چاند پر پانی ڈھونڈاجارہا ہے، انٹرنیٹ کا غلبہ ہے بے تار رابطے مستحکم ہورہے ہیں، سمندروں کی تہوں میں جھانکا جارہا ہے۔ ایسے سمے میں صدی کی تیسری دہائی میں دنیا کے عین قلب میں ایک ایسا خوبصورت ملک ہے فلسطین جسے انبیا کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ سفاک، غاصب یہودی دورِ حاضر کے چنگیز رات دن لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے ماننے والوں پر جدید ترین مہلک ہتھیاروں سے، آواز سے تیز رفتار طیاروں سے رات دن حملے کررہے ہیں۔ بچوں کی نسلیں ختم کی جارہی ہیں۔ دنیا جسے عالمگیر گائوں کہا جارہا ہے، جب ایک آواز لمحوں میں فاصلے طے کرکے پہنچ رہی ہے۔ ایسی دنیا میں اتنی بے حسی،اتنی چشم پوشی کہ ہر روز کئی کئی سو جیتے جاگتے انسان ہلاک کیے جارہے ہیں۔ کوئی نیتن یاہو پر پابندیاں نہیں لگاتا، کوئی ان انسانیت دشمنوں کے ہاتھ نہیں روکتا۔ عیسائی ، یہودی، ہندو اپنے کسی ایک ہم مذہب پر کوئی مصیبت آئے تو دنیا کو ہلادیا جاتا ہے۔ میڈیا چیخنے لگتا ہے۔ سفارتی رابطے حرکت میں آجاتے ہیں۔ وائٹ ہائوس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پینٹا گون کے ترجمان جبڑے ہلاتے آجاتے پھر ان کے یورپی گماشتے، ایشیائی ایجنٹ بھی منہ سے جھاگ اڑانے لگ جاتے ہیں۔ یہاں شقی القلب اسرائیلی حکمرانوں نے ایک ہی سال میں 50 ہزار سے زیادہ انسان قتل کر ڈالے۔ اب بھی حملے جاری ہیں، گھر تباہ کردیے گئے، اسپتال بھی صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے، ریڈ کراس والے کھل کر احتجاج نہیں کررہے ، خوراک پہنچانے کی ذمہ دار ایجنسیوں کی پکار بھی بہت مدہم ہے، ریلیاں ہوئیں، لاکھوں طلبہ و طالبات نے احتجاج کیا، امریکہ یورپ میں لیکن وہاں کی حکومتوں نے اس آواز میں آواز نہیں ملائی۔
عالمی اداروں کے بارے میں اقبال نے درست کہا تھا۔
بہر تقسیم قبو رانجمنے ساختہ اند
قبروں کی تقسیم کیلئے ایک انجمن بنائی ہے۔ یہودو نصاریٰ سے تو کسی خیر کی امید نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن یہ 54اسلامی ممالک، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے،جہاں حکمران بھی مسلمان ہیں، ایک او آئی سی بھی ہے، اس کا سیکرٹریٹ بھی ہے، طاقت ور دولت مند بادشاہ ہیں، امیر ہیں، سپہ سالار ہیں، ایک اسلامی ایٹمی طاقت بھی ہے۔ جو عالمی طاقتوں کو فنڈز بھی دیتے ہیں، ان کے بینکوں میں ان کے اربوں ڈالر ڈیپازٹ بھی ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ سارے بادشاہ، امیر، سپہ سالار بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان سرکش فلسطینیوں کے سر کچل دیے جائیں، ان کی نسل بھی ختم کردی جائے، یہ بڑے شاہی خاندان، اشرافیہ، جاگیردار سرمایہ دار نہیں چاہتے کہ مسلمانوں میں ایسے جراتمند جانبار نغمہ گر، افسانہ نویس، ناول نگار ہوں۔ اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے قبیلے ہوں۔ یہ مسلمان ریاستوں کے یہود ونصاریٰ سے گٹھ جوڑ میں رکاوٹ ہوں۔ دیکھ لیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے کونسے ممالک ہیں۔ مسلمان ملکوں میں اکثریت کی آواز پر اقلیت غالب ہے۔ مینڈیٹ کا حصول کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شاہی خاندانوں کو کلّی اختیارات صرف مسلمان ملکوں میں حاصل ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی صرف مسلم ریاستوں میں ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ کروڑوں ڈالر اس سے وابستہ اہلکاروں پر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکی سینیٹ، کانگریس کی انسانی حقوق کی رپورٹ دنیا بھر کے میڈیا پر گردش کرتی ہے۔ فلسطین میں 2024 ۔ یکم جنوری سے 31 دسمبر تک کتنی خونریزی میں گزرا، یہ جنگ نہیں ہے،کھلی جارحیت ہے۔ بربریت ہے، جو ایک طاقت ور، جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس متعصب ریاست کررہی ہے۔ نیتن یاہو ویسے مغرب کے معتوب تھے مگر مسلمانوں کی نسل کشی میں، انسانیت کے قتل عام میں، امریکہ یورپ اس کی سرپرستی کررہے ہیں۔ نہتے فلسطینیوں کی بے بسی کے مقابلے میں دفاع کا حق اسرائیل کو دے رہے ہیں ۔ کس غیر انسانی لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاع میں جو کچھ کررہا ہے،درست کررہا ہے۔ امریکی انتظامیہ بائیڈن کی ہو یا ٹرمپ کی،وہ اسرائیل کی پشت پناہی اپنا انسانی فرض سمجھتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور یورپ تو اپنے ہاں امن کی فضا قائم کرچکے ہیں۔ صنعتی ترقی ہورہی ہے۔ روس اور چین بھی اپنے ہاں امن سلامتی لے آئے ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں ان جنگوں کے دوران جو کشمکش تھی، وہ مسلسل چلی آرہی ہے۔ 1974 میں لاہور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جو اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں سارے اہم مسلمان سربراہ شریک ہوئے جہاں پہلی بار مسلمان ریاستوں نے اپنے تیل کی دولت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ اس کے بعد باری باری شاہ فیصل ، اسلامی سربراہ کانفرنس کے میزبان بھٹو سمیت قتل کردیے گئے۔ اپنے لوگوں سے ہی ہلاک کروایا گیا۔ مغرب نے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیا۔ اس کے بعد ساری اسلامی ریاستیں ، مغرب کے تابع ہوکر رہ گئی ہیں۔ سب کٹھ پتلیاں جن کی ڈور واشنگٹن سے ہلتی ہے، واشنگٹن کی ڈور یہودیوں کی کونسل ہلاتی ہے۔
مسلمان عوام تو بیدار ہیں، مسلمان شاعر، اہل قلم تو اپنا جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن حکومتیں، بادشاہتیں، امارتیں، سب مغربی طاقتوں، یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔ وہ حکم دیتے ہیں تو یہ اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیںلیکن جو وعدے کیے جاتے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے ہیں۔
مسلمان دنیا میں اب کوئی لیڈر نہیں ہے۔ قافلۂ حجاز میں کوئی حسین ہی نہیں۔
اقبال کی آواز آرہی ہے؟
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستان پیدا
بشکریہ روزنامہ جنگ