کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ فروری 2024ء کے بعد سے جو ’’بندوبستِ حکومت‘‘ متعارف کروایا گیا ہے وہ عوام کو مفلوج اور ناکارہ دکھائی دے رہا ہے۔ مذکورہ نظام کی بدولت ہماری معیشت یقینا دیوالیہ ہونے سے بچ گئی ہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ ہماری معیشت کی بحالی کے بعد اسے آگے بڑھانے کے معاملات بھی طے ہوگئے۔ شاید ان ہی معاملات کی بدولت ہماری سٹاک ایکس چینج میں ریکارڈ توڑ بڑھوتی نظر آرہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بے تحاشہ ماہرین معیشت گہری تحقیق کے بعد مصر ہیں کہ سٹاک ایکس چینج میں مندی یا رونق کے رحجانات کسی ملک کی معیشت کے کلیدی اشارے نہیں ہوتے۔ بنیادی بات وہاں بسے عوام کی اکثریت کا موڈ ہے۔
اسے Feel Good Factorکہتے ہیں۔ اس معیار کو ذہن میں لائوں تو گزرے ہفتے کی صبح مجھے ضرورت کی چند اشیاء خریدنے کے لئے اسلام آباد کے تین بازاروں میں واقع چند دوکانوں پر جانا پڑا۔ ٹی وی سکرینوں پر رونمائی کی بدولت ناواقف دوکاندار بھی مجھے پہچان لیتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بجائے اپنا سودا بیچنے کے پریشان چہرے کے ساتھ یہ پوچھنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ’’ہمارے حالات بہتر ہونے کی امید ہے یا نہیں‘‘۔ اس سوال کی ساخت اپنے تئیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ’’سب اچھا نہیں ہے‘‘۔ اس پیغام کے ہوتے ہوئے شرح سود میں کمی یا سٹاک ایکس چینج میں بڑھوتی کی خبریں ’’فیل گڈ‘‘ ماحول پیدا نہیں کرسکتیں۔
ان دو خبروں کے علاوہ ان دنوں مہنگائی میں کمی ثابت کرنے کے لئے اعدادوشمار بھی بیان کئے جارے ہیں۔ چند روز قبل میں اپنے گھر بیٹھا تھا تو کچھ مہمان آگئے۔ ٹی وی چل رہا تھا۔ وہاں مہنگائی میں کمی ثابت کرنے والے اعدادوشمار چلے تو ہماری ایک مہمان خاتون جو گھر کا سودا ہر ہفتے خود خریدتی ہیں تڑپ کر بولیں ’’نصرت بھائی بازار جاتی ہوں تو سوداخریدتے وقت مجھے مہنگائی میں وہ کمی محسوس نہیں ہوتی جو آپ بتاتے ہیں۔‘‘ ان کے فقرے میں ’’آپ‘‘ کا استعمال درحقیقت میری مذمت نہیں بلکہ روایتی میڈیا کو بحیثیت مجموعی جھوٹا ثابت کرنا تھا۔ میرے گھر آئے مہمان ہی اگر اس پیشے کی صداقت پر سوالات اٹھانا شروع کردیں جس سے ساری زندگی نہایت دیوانگی کے ساتھ وابستہ رہا ہوں تو دل کانپ جاتا ہے۔ ساری عمر ایک شعبے کی نذر کرنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں اس کی ساکھ لٹ جانے کا غم پوری شدت کے ساتھ آپ کے ساتھ شیئر کرنا ممکن ہی نہیں۔
روایتی میڈیاکی ساکھ کا معاملہ مگر پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ہمارے روایتی میڈیا نے مگر اس پہلو کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ حکمرانوں کی اس ضمن میں بے اعتنائی اگرچہ سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ حکمرانوں کی ساکھ بھی برقرار ہے یا نہیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ میڈیا، حکمران اور پارلیمان اور عدلیہ اجتماعی اعتبار سے اپنی ساکھ لٹادیں تو معاشرے عدم اطمینانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دْکھ اگرچہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں موجود بداطمینانی نے ’’حکومتی بندوبست‘‘ تباہ وبرباد کردیا لیکن اطمینان اس کے باوجود نصیب نہیں ہوا۔ لیبیا،یمن، صومالیہ اور سوڈان کئی سالوں سے اس حقیقت کو ثابت کررہے ہیں۔ حال ہی میں شام میں بھی ’’انقلابی تبدیلی‘‘ آئی ہے۔ اس کے بعد جو نظام تشکیل پائے گا اس کے بارے میں کوئی ایک شخص بھی آپ کو تسلی بخش جواب فراہم کرسکنے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں ’’انقلابی تبدیلی‘‘ بنگلہ دیش میں بھی آئی ہے۔ ہم پاکستانیوں کی اکثریت اس کے بارے میں واجب بنیادوں پر بہت خوش ہے۔ وہاں اضطراب مگر اب بھی قائم ودائم ہے۔ حال ہی میں اپنے ملک کی ’’یوم آزادی‘‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں کے عبوری وزیر اعظم محمد یونس نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں نئی منتخب حکومت کے قیام کے لئے 2025ء کے آخر تک انتظار کرنا ہوگا۔ آئندہ ایک برس بھی لہٰذا ’’عبوری بندوبست‘‘ کے تحت ہی چلایا جائے گا۔ بنگالی نہایت متلون مزاج قوم ہیں۔ مجھے خبر نہیں وہ مزید ایک برس تک ’’عبوری بندوبست‘‘ کے ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ خاص طورپر ان حالات میں جبکہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران بھارت ان کی معیشت کو رواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے معاملات پر فکرمندی کو فی الوقت نظرانداز کرتے ہوئے مجھے وطن عزیز کے ’’بندوبست حکومت‘‘ کی جانب لوٹنا ہوگا۔ پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ایک وفاق ہے۔ ہمارے ہاں آئین کی اٹھارہویں ترمیم کی بدولت صوبوں کو مثالی خودمختاری میسر ہے اور مزید بڑھنے سے قبل ہی اقرار کرتا ہوں کہ اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران میں شدت سے صوبائی خودمختاری کو پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرے کے بجائے اس کی بقاء کی ضمانت تصور کرتا رہا ہوں۔
گزرے ہفتے خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور صاحب نے ایک بیان دیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو اسے میں نے ایک نہیں کئی بار نہایت توجہ سے سنا اور اپنا سرپکڑلیا۔ وہ ’’اگلی بار‘‘ اسلحہ سمیت اسلام آباد آنے کی دھمکی ہی نہیں دے رہے تھے بلکہ انتہائی رکیک الفاظ استعمال کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے افسران اعلیٰ کی حکم عدولی پر بھی اْکسارہے تھے۔ دو سے زیادہ دن گزرگئے مگر ان کے ادا کئے کلمات کی سرزنش ہوئی مجھے نظر نہیں آئی۔ 18ویں ترمیم کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے آئین یا اسے بھلاکر تیار کئے حکومتی بندوبست میں ’’ایپکس کمیٹی‘‘ جیسے فورم موجود ہیں۔ جہاں خیبرپختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کو طلب کرنے کے بعد مذکورہ بیان کی وضاحت دینے کو مجبور کیا جاسکتا تھا۔ کسی جانب سے مگر ایسی پیش قدمی نظر نہیں آئی۔ علی امین کی بھڑکائی بدخبری اپنی جگہ موجود تھی تو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی قیام گاہ پر مفتی تقی عثمانی ا ور مفتی منیب صاحب جیسے جید علماء تشریف لائے اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہوئے مدارس بل کے فی الفور نفاذ کا مطالبہ کردیا۔ امید تھی کہ ان کی تسلی کے لئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا۔ اسے موخر کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مگر مصر جانے کی خبر آرہی ہے۔ حکمرانوں کی بے نیازی کا یہ عالم میں نے 1975ء سے شروع کی صحافت کے دوران شاذہی دیکھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت