وہ لوگ عظیم سمجھے جاتے ہیں جو طاقتور ہوکر بھی اپنے کمزور حریف کے بارے میں صلہ رحمی سے کام لیں اور وہی لوگ کامیاب ٹھہرتے جو طاقت کی پوزیشن (From the position of strength) بات چیت کرے۔ حکومت کے بعض وزرا کے بیانات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اب کمزور پوزیشن میں آگئے ہیں۔ انہوں نے احتجاج کے سارے آپشن آزمالئے ۔ ایک آپشن سول نافرمانی کا بچا ہے اور اسے وہ نہیں کرسکیں گے ۔اس لئے ان وزرا کا لہجہ سخت ہوگیا ہے اور اس میں رعونت آگئی ہے ۔یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے دور میں ہمارے ساتھ یہ یہ برا کیا ۔ ہمیں بے گناہ جیلوں میں ڈالا۔ شہباز شریف ان کو دعوت دیتے رہے کہ میثاق معیشت کرتے ہیں لیکن عمران خان ان سے ہاتھ ملانے کو تیار نہ تھے ۔جب اپوزیشن مذاکرات کی بات کرتی تو وزیراعظم عمران خان اور اور ان کے وزرا طعنہ دیتے کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ اس لئے اب عمران خان سے بھی بات نہیں کرنی چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے مذاکرات کے لیے یہ مناسب وقت نہیں۔ لیکن میری ناقص رائے کے مطابق مذاکرات کے لئے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنمائوں کے ساتھ زیادتی ہوگئی تھی اور وہ جیلوں میں ڈالے گئے تھے تو اب تحریک انصاف کے رہنمائوں کے ساتھ بھی ایسا ہوگیا ہے۔ ان کے لیڈر نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز نے جیل کاٹی تو عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی اس مرحلے سے گزرے۔ حکومتی وزرا کے زعم کی دوسری وجہ یہ ہے کہ معیشت کے کچھ اشاریے بہتر ہوگئے ہیں لیکن معیشت کے کچھ اشاریوں کے بہتر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملک معاشی طورپر مستحکم ہوگیا ہے بلکہ اب بھی کافی چیلنجز درپیش ہیں۔ بجلی کے بل اب بھی لوگوں کی قوت ادائیگی سے زیادہ ہیں۔ بے روزگاری اب بھی زوروں پر ہے ۔ برین ڈرین کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود حکمران بھی یہ مانتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا اور ظاہر ہے کہ سیاسی استحکام کے لئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج حکومت کو نہ گراسکے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت مضبوط ہوگئی ہے۔ حکومت جیسی کمزور تھی اب بھی ہے۔ حکومت کی ساکھ کا سوال پہلے کی طرح کھڑا ہے ۔ علاوہ ازیں کسی بھی وقت زرداری صاحب پینترا بدل کر حکومت گرا سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو نون لیگ کی حکومت کو پیپلزپارٹی کی بلیک میلنگ کے ساتھ حکومت کرنی ہوگی۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی حوالوں سے اس وقت ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا۔ اداروں پر عوام کے اعتماد میں کمی آرہی ہے۔ جو پولیٹکل پولرائزیشن ہے اس کی وجہ سے سیاست معمول کی سیاست نہیں بن سکتی اور ریاست کے وجود کو لگے زخم مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ نظریات جو بھی ہوں لیکن پی ٹی آئی والے بھی اس ملک کے شہری ہیں اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے بھی ۔ یہ کوئی اسلام اور کفر کی جنگ نہیں ۔ آج ایک بندہ ایک پارٹی میں ہوتا ہے اور کل دوسری پارٹی میں۔ ہر ٹاک شو سے نکل کر ان جماعتوں کے نمائندے پھر اکٹھے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جو ماحول بنایا گیا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ڈی چوک جیسے سانحات پیش آتے ہیں۔
یہ وہ وجوہات ہیں جو تقاضہ کرتی ہیں کہ انتقامی سوچ ترک کرکے آپس میں بات کی جائے۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو مدنظر رکھا جائے ۔ بس بہت ہوگیا ۔اب ایک فریق بھی کچھ پیچھے ہٹے اور دوسرا فریق بھی ۔ صرف مسلم لیگ اور پی ٹی آئی نہیں بلکہ تمام سیاسی اور دینی جماعتیں آپس میں بیٹھیں ۔ میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے پیدا کریں ۔ یا تو قومی حکومت پر اتفاق کرلیں اور اگر وہ نہیں ہوسکتا تو ایسے قوانین بنائیں کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی نہ ہوسکے ۔ پانچ سال کی بجائے حکومت کچھ اپنی مدت کم کرے اور کچھ اپوزیشن حکومت کو مہلت دے ۔ جتنے جلد نئے انتخابات کرائے جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا ۔
کچھ لوگوں کو ایسی باتیں محض خواب لگتی ہیں لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا سال پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ساتھ بیٹھیں گی ۔ جن لوگوں نے پاکستان کا متفقہ آئین بنایا وہ بھی کوئی آسمان سے اترے ہوئے نہ تھے بلکہ مختلف خوبیوں اور خامیوں کے حامل اسی طرح کے سیاستدان تھے ۔
اسی طرح جن سیاستدانوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر اتفاق کیا ،ان میں بعض اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن وہ سیاسی لاٹ اب بھی میدان عمل میں ہے۔ جذبات اور انتقامی سوچ کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو اس وقت باہم بیٹھ کر مذاکرات کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔مذاکرات سے پہلے فریقین غصہ تھوک دیںاور یہ ذہن میں رکھیں کہ ایک ملک کے باشندے لیکن مختلف نظریات کے حامل بھائی مذاکرات کررہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ