اسلام آباد(صباح نیوز) ڈیٹا اب صرف ایک آلہ نہیں رہابلکہ ترقی اور تبدیلی کا بنیادی ستون بن چکا ہے۔ پائیدار ترقی اہداف (ایس ڈی جیز) کا 68 فیصد حصہ کا انحصار ڈیٹا کے معیارپر ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ڈیٹا مینجمنٹ اور بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ باتیں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال چوہدری نے یہاں ایک اعلیٰ سطح کے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔اس دو روزہ ”ڈیٹا فارڈیویلپمنٹ” (D4D) سمپوزیم کا انعقاد پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(SDPI ) نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (UNFPA) کے تعاون سے کیا ۔سمپوزیم میں مختلف شعبہ جات کے اہم شراکت داروں نے شرکت کی وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ دنیا میں ڈیٹا ایک قیمتی سرمایہ بن چکا ہے جوفیصلہ سازی ،پیداوار میں اضافے اور معاشی و سماجی ترقی میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سمپوزیم میں مختلف شعبہ جات کے اہم شراکت داروں نے شرکت کرکے ڈیٹا کی دستیابی اور اس کے مؤثر استعمال کے حوالے سے حکمتِ عملی پر بحث کی۔پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کو تعلیم، صحت، اور گورننس جیسے شعبہ جات میں انٹرنیٹ تک وسیع رسائی یقینی بنانے میں چیلنجز درپیش ہیں۔
پروفیسر اقبال نے پاکستان میں ڈیٹا کے مؤثر استعمال کی مثالیں پیش کیں۔انہوں نے ڈیٹا کے استعمال میں اخلاقی اصولوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عوامی اعتماد ڈیٹا جمع کرنے کی کامیابی کیلئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 3.8 کروڑ افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں، جس کے پیشِ نظر حکومت ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے اور کم سہولت یافتہ علاقوں میں کنیکٹیویٹی بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے نیز 1 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو آئی ٹی اور ڈیٹا کے شعبوں میں تربیت دی جا رہی ہے۔انہوںنے ماحولیاتی تبدیلی اور وبائوں کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سرحد پار ڈیٹا کے اشتراک کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے ڈیٹا کے ذمہ دارانہ استعمال شفافیت، شمولیت، اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مجبوری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے آبادی کے نمائندہ ڈاکٹرLuay Shabaneh نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ جب تک ڈیٹاکو تعلیم، غذائیت، اور زچہ و بچہ کی صحت جیسے شعبوں کیلئے قابلِ عمل علم میں تبدیل نہ کیا جائے اسوقت تک اس کی اپمیت نہیں بنتی ۔انہوں نے ڈیٹا جمع کرنے اور شیئر کرنے میں شفافیت کی ضرورت پر زور دیا۔قبل ازیںایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین، سفیر شفقت کاکا خیل نے سمپوزیم کا افتتاح کیا۔انہوںنے ڈی 4 ڈی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ یہ وفاقی اور صوبائی سطح پر سرکاری اداروں کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔انہوں نے دوست ممالک اور تنظیموں کے ساتھ تعاون کی تعریف کی جنہوں نے اس منصوبے میں حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا مؤثر پالیسی سازی کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا ۔یو این ایف پی اے کے پروگرام تجزیہ کار مقدر شاہ نے کہا کہ ڈی 4 ڈی منصوبہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد ڈیٹا کی دستیابی میں موجود خلاء کو پْر کرنا اور پالیسی سازی کے لیے معیاری اور مضبوط ڈیٹا کے استعمال کو بہتر بنانا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اورD4D کے سربراہ ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے اس منصوبے کی وسیع رسائی اور شراکت داروں کو بااختیار بنانے میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
افغان مہاجرین کے لئے خیبرپختونخوا کے چیف کمشنر شکیل محمد خان صافی نے تقریب میں تین ملین مہاجرین کی رجسٹریشن میں درست ڈیٹا کی اہمیت پر زور دیا۔بلوچستان کے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی و ترقیات، ولی محمد بارچ نے وسائل اور خدمات کے انتظام میں ڈیجیٹلائزیشن اور جیو اسپیشل ڈیٹا کی اہمیت کو اجاگر کیا۔سمپوزیم کے اختتام پر پروفیسر احسن اقبال، یو این ایف پی اے کے نمائندہ، ایس ڈی پی آئی کے شفقت کاکا خیل اور دیگرنے پاکستان کے پہلےD4Dپورٹل کا افتتاح کیا۔ یہ پورٹل آبادی، صحت، صنف، تعلیم اور دیگر موضوعات پر اہم ڈیٹا کو مرکزیت فراہم کمرکزیت فراہم کرے گااور مختلف شعبہ جات میں شفافیت اور تعاون کو بڑھانے میں اہم ذریعہ ثابت گا۔