تاریخ پر بحث تاریخ کی کتابوں یا دیگر مستند حوالوں کی مدد سے کی جاتی ہے۔ بحث کا مقصد تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوشش ہونا چاہیے کیونکہ لمحوں کی خطا سے صدیاں سزا پاتی ہیں۔ جب آپ تاریخ پر بحث میں بے سروپا قصے کہانیوں کو لے آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا موقف کمزور ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی آج کل کچھ ایسے واقعات بیان کر رہے ہیں جو تاریخ کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ مثال کے طور پر ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں شہزادہ کریم کی پہلی مسلح بغاوت کیخلاف کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک پولیس آپریشن ہوا تھا۔ میں نے 21نومبر 2024ء کے کالم میں شہزادہ کریم کے خلاف فوجی آپریشن کے نگران میجر جنرل اکبر خان کی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ کا حوالہ دیا اور صفحہ نمبر 283کا بھی ذکر کیا جہاں اس آپریشن کی تفصیل لکھی گئی۔ میجر جنرل اکبر خان بہت سال پہلے یہ تفصیلات ’’ڈان‘‘ اخبار میں بھی لکھ چکے ہیں۔ 23 نومبر 2024ء کے روزنامہ جنگ میں سرفراز بگٹی نے ’’فریادِ بلوچستان یا فکر ِیاراں‘‘ کے عنوان سے میرے کالم کا جواب لکھا ہے۔ اس کالم میں موصوف نے دعویٰ کیا ہے کہ حامد میر تاریخ کو مسخ کرتا ہے لیکن اب اسے مدلل جواب ملے گا۔ پورے جواب میں انہوں نے شہزادہ کریم کے خلاف آپریشن کا ذکر نہیں کیا اور دعویٰ کردیا ہے کہ وہ ڈاکٹر اللہ نذر اور بشیر زیب سے تو مذاکرات کے لئےتیار ہیں لیکن ان سے مذاکرات بے سود ہیں جن کی ملاقات حامد میر نے ایک خلیجی ملک میں سابق وزیر دفاع سے کرائی تھی۔ سرفراز بگٹی کا میری ذات کےبارے میں یہ دعویٰ ویسا ہی ہے جیسا انہوں نے شہزادہ کریم کے بار ےمیں کیا۔ وہ جس بھی سابق وزیر دفاع کا ذکرکر رہے ہیں اسے کہیں کہ ٹی وی پر آ کر میرے سامنے بیٹھ کر یہ بات کرے۔ سرفراز بگٹی صاحب میرےساتھ ٹی وی چینل پر بلوچستان کے بارے میں مذاکرہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ٹی وی چینل پر مذاکرے سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہوگا؟ بلوچستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک آپ اپنے تاریخی حقائق درست نہیں کریںگے۔ سرفراز بگٹی اور ان کے کچھ ’’شفیق‘‘ دوست ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کے سیاسی مخالفین پاکستان کے خلاف ہیں تو وہ براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری کا ذکر شروع کردیں گے۔ انہیں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کس سے پوچھ کر کئے تھے؟جواب تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دینا چاہیے لیکن میری معلومات کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے یہ مذاکرات اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر کئے تھے اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کور کمانڈر کوئٹہ ناصر جنجوعہ کے ذریعے مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ رکھاگیا۔ بعد میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جگہ ثنا اللہ زہری وزیر اعلیٰ بن گئے اور مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف بلوچ عسکریت پسندوں سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن فی الحال کوئی بھی گروپ مذاکرات پر راضی نہیں۔
مذاکرات سے انکار کی کئی وجوہات ہیں اور ان میں سے ایک وجہ سرفراز بگٹی بھی ہیں۔ جب سرفراز بگٹی نگران وزیر داخلہ اور انوار الحق کاکڑ نگران وزیر اعظم تھے تو بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین دسمبر کی سخت سردی میں گوادر سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد آئے۔ یہ مظلوم افراد اسلام آباد پہنچے تو پولیس نے لاٹھیوں اور آنسو گیس سے ان کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا تعلق بلوچستان سے تھا اور اسلام آباد میں بلوچ عورتوں اور بچوں کو مارپیٹ کر گرفتار کرلیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مظلوموں کی رہائی کا حکم دیا تو اسلام آباد پولیس نے انہیں زبردستی دارالحکومت سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب عدالتی احکامات کے خلاف ان عورتوں اور بچوں کو زبردستی گھسیٹ گھسیٹ کر ایک بس میں دھکیلا جا رہا تھا تو میں ویمن پولیس اسٹیشن پہنچا کیونکہ مجھے بتایاگیا تھا کہ تمام بلوچ عورتوںاور بچوں کو رہا کردیاگیا تھا۔ جب میں نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ پولیس کی مارا ماری دیکھی تو ایک پولیس افسر سے کہا کہ تم پاکستانی شہریوں کو پاکستان کے دارالحکومت سے کیسے نکال سکتے ہو؟ اس افسر نے غراتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی نہیں بلکہ انڈین ایجنٹ ہیں اور میرے ساتھ گالی گلوچ شروع کردی۔ جب پولیس نے مجھ پر حملہ کیا تو بلوچ عورتیں اور بچے میری ڈھال بن گئے جس پر ان کو بہت بری طرح مارا پیٹا گیا۔ دسمبر کی اس رات کو اسلام آباد میں بلوچ عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو ہوا اس پر صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سرفراز بگٹی کی نگرانی میں اسلام آباد پولیس نے جو تاریخ رقم کی اُس کا میں عینی شاہد ہوں۔ اس ایک واقعے کی وجہ سے عسکریت پسند تو دور کی بات بلوچستان کے اکثر سیاسی کارکن اور دانشور بھی سرفراز بگٹی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ سرفراز بگٹی نے مجھے جس ’’فکریاراں‘‘ کا طعنہ دیا ہے میں اس فکر سے بالکل انکار نہیں کرتا۔ صرف بلوچستان نہیں بلکہ خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ہر مظلوم کے میں ساتھ کھڑا ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھیوں کے ساتھ نیاز مندی رکھتا ہوں۔ جب بزنجو صاحب کچھ عرصے کے لئے بلوچستان کے گورنر اور مینگل صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو دونوں نے اردو کوصوبے کی دفتری زبان بنایا۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود تھے۔ انہوں نے یہی فیصلہ اپنے صوبے کے لئے کیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو کام بزنجو صاحب اور مینگل صاحب نے 1972ء میں کیا وہ 1973ء میں پاکستان کے آئین کا حصہ بن گیا۔ آئین کی دفعہ 251 میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا اور اگلے 15 سال میں اسے دفتری زبان بنانے کا عزم کیا گیا۔ افسوس آج 50 سال سے اوپر ہوگئے اور اسلام آباد میں آج بھی انگریزی کا راج ہے۔ فیصلہ عوام کریں کہ 1972ء میں اردو کو بلوچستان کی دفتری زبان بنانے والے پاکستان کے دوست تھے یا دشمن؟ سرفراز بگٹی بڑے دھڑلے سے ایک اور غلط بیانی بھی کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے عطاء اللہ مینگل نے اتارا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ نو روز بابا آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہا تھا ون یونٹ کی مخالفت کر رہا تھا۔ دوسری بات یہ کہ مینگل صاحب کو سردار فقیر محمد بزنجو اور سردار خان محمد حسنی کے ہمراہ زہری ایریا کے ملٹری کیمپ میں بلا کر کہاگیا کہ نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارو۔ تینوں سرداروں نے انکار کردیا جس کے بعد کرنل ٹکا خان نے سردار دودا خان زرکزئی کے ذریعے نوروز بابا سے رابطہ کیا۔ مزید تفصیل پنجابی زبان کے ادیب اور شاعر احمد سلیم کی تحقیقی کتاب ’’بلوچستان، صوبہ مرکز تعلقات‘‘ کے صفحہ 26اور 27پر موجود ہے۔ جو دھوکہ نواب نوروز خان کے ساتھ ہوا وہ آج بھی جاری ہے۔ اس دھوکے کو قومی مفاد کے نام پر تسلیم کرنے سے کل بھی انکار کیا تھا اور میں آج بھی انکار کرتا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ