بہت اہم۔ حساس۔ منہ بولتا اتوار…محمود شام


بحران اپنی حد پار کررہا ہے۔

اب دیکھیں یہ اپنے منطقی اور تاریخی انجام تک پہنچنے دیا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں ایک رجحان 77 سالہ تاریخ میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ کئی فیصلہ کن موڑ آئے جہاں سے پاکستان کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوسکتا تھا۔ مگر بر سر اقتدار قوتوں نے عوامی ابھار کو منطقی اور تاریخی انجام تک نہیں پہنچنے دیا۔ ایسی کاسمیٹک تبدیلیاں (ظاہری صوری) لائی گئیں کہ قافلے رک گئے۔ اور سمجھے کہ ان کی منزل آ گئی ہے۔ فیض یاد آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

یہ داغ داغ اجالا۔ یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

احمد ندیم قاسمی کہہ رہے ہیں:

ہم گجر بجنے سے دھوکہ کھاگئے

پھر بھیانک تیرگی میں آگئے

مجھے احمد ندیم قاسمی سے میٹرک پاس کرنے کے بعد آٹو گراف کی درخواست پر یہ شعر عنایت ہوا تھا۔

رات جل اٹھتی ہے جب شدت ظلمت سے ندیم

لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں

اب بحران حدیں بھی پار کررہا ہے اور نئے روپ بھی اختیار کررہا ہے۔ خبریں تو آتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہی خبریں ہوں۔ جن کا ہم میں سے کچھ لوگ منتظر ہوں۔ یہ تو نا ممکن ہے کہ سب ہی کسی ایک خبر کی توقع میں ٹی وی چینل دیکھتے ہوں۔ پارا چنار سے خون میں لت پت خبر کا انتظار تو کسی کو نہیں تھا۔ نہ ہی ہم میں سے کوئی بنوں سے اس دلگداز سانحے کی ’اڈیک‘ میں ہوتا ہے کہ چھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے 12جانباز شہید ہوجائیں۔ اس پر 24کروڑ متفق ہیں کہ 77سال بعد یہ عظیم مملکت جہاں ہونی چاہئے تھی، وہاں نہیں ہے۔ اور یہ بھی سب جان چکے ہیں کہ جہاں ہونی چاہئے تھی اسکے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والے کونسے طبقے ہیں، کونسے رویے ہیں۔ کونسے ادارے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واہگہ سے گوادر تک اکثریت کی سوچ ان دنوں زیادہ واضح اور زیادہ شفاف ہے۔ جبکہ ہمارے رہبروں، دانشوروں، مورخوں کی سوچ تو واضح ہے۔ لیکن وہ جو کچھ بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اس میں وہ دل کی بات نہیں کہتے ہیں۔

آج اتوار ہے، بہت ہی اہم حساس منہ بولتا اتوار۔ بہت سے والدین آج ہماری درخواست پوری نہیں کرسکیں گے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر نہیں بیٹھ سکیں گے۔ حالات گزراں پر بات نہیں کر سکیں گے۔ لیکن ایک اکثریت ہوگی جو آج بھی اپنی اولادوں کے ساتھ ہو گی۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ قومیں جو ابھی تک تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں ہیں۔ وہ اپنی ترقی کے سفر میں بہت پسماندہ ہو رہی ہیں۔ یہ دَور اجتماعی قیادت کا ہے۔ انسان نے کئی صدیوں کی مشاورت، جدو جہد، خانہ جنگیوں کے بعد اجتماعی مشاورت کے نظام کو استوار کیا ہے۔ چاہے وہ صدارتی نظام حکومت کی شکل میں ہو یا پارلیمانی۔ ہمارے سابق آقا انگریز پارلیمانی نظام کی طرف چلے گئے۔ بادشاہت کو رسمی طور پر رکھا۔ امریکہ صدارتی نظام کی طرف گیا۔ مگر کانگریس اور سینیٹ کو واضح اختیارات دیے۔ ساری اہم تقرریاں، سینیٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے، بہت خطرناک سوالات کے جواب دینے کے بعد ملتی ہیں۔ پارلیمانی نظام میں بھی اعلیٰ عہدے بہت سوچ بچار اور اہلیت دیکھنے کے بعد دیے جاتے ہیں۔ حکومت چلانا سب سے مشکل فریضہ ہے۔ سیاسی بھی، عسکری بھی۔ یہ موروثی ہر گز نہیں ہو سکتا۔

جمہوریتوں میں حکومت صرف حکمران پارٹی نہیں چلاتی۔ اس میں اپوزیشن کا بھی ایک کردار ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہوتی ہے۔ اسکے بعد ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کی۔ پارلیمنٹ جہاں ایسے قانون بنائے جاتے ہیں۔ جن سے ایک بڑی تعداد ضابطوں میں لائی جاتی ہے۔ ایسی مملکت میں جہاں کئی کئی صدیوں کا پس منظر رکھنے والی مختلف زبانیں بولنے والی قومیتیں رہتی ہیں۔ وہاں تو قوانین کی منظوری سے پہلے انکے ایک ایک حرف حتیٰ کہ زیر، زبر پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ اجلاس میں ہاں بولنے والوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرکے معلوم کیا جائے کہ جس قانون کی ہم نے منظوری دی ہے۔ اس کا متن تو ہم دیکھ لیں۔

بحران اس وقت حد سے گزر رہا ہے۔ پنجاب، کے پی کے، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، زیادہ تر چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اب کیا ہوگا۔؟ہم جیسے عمر دراز بہت سے ایسے تاریخی موڑ دیکھ چکے ہیں۔ جب یہی اضطرابی کیفیت ہوتی تھی۔ فیصلہ کن موڑ آئے ہیں۔ لیکن وہ فیصلے نہیں کیے گئےجو ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان میں بہت سوں سے اختیارات چھن سکتے تھے۔ ہمارے ہاں یہ بھی ضد رہی ہے کہ ہم ہی اس ملک کیلئے آخری امید ہیں۔ ہمیں اقتدار نہیں چھوڑنا چاہئے۔ با عزت طریقے سے بہت کم حکمرانوں نے تخت چھوڑا۔

’ہمہ یاراں دوزخ‘ والے صدیق سالک سے ایک ملاقات یاد آتی ہے۔ آرمی ہائوس میں۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے عین عالم شباب میں۔ کہنے لگے۔ ہمارے ہاںSense of Taking Overتو ہے۔ نظم و نسق سنبھالنے کے موزوں وقت کا احساس۔ مگر Sense of Handing Over ۔ نظم و نسق کسی موزوں شخص یا ادارے کے حوالے کرنے کا احساس نہیں ہے۔ حکمران سیاسی ہوں یا فوجی، کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ اب گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔

میں تو ان دنوں ہر ملنے والے سے ایک کرب بانٹ رہا ہوں۔ بزرگ کہہ رہے ہیں۔ ’کیا ہم نے یہ ملک ان حالات کیلئے بنایا تھا۔‘ کیا ہماے اکابر نے یہ ملک ان موروثی حکومتوں کیلئے حاصل کیا تھا۔ نوجوان کہہ رہے ہیں، میرٹ کا قتل ہو رہا ہے، ہم تو جلد ہی باہر نکل جائیں گے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم، وزراء، اعلیٰ سرکاری فوجی افسر دوسرے ملکوں کی سکونت اختیار کررہے ہیں۔ بعض ملک واپس صرف حلف اٹھانے آتے ہیں۔

موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ آسان نہیں ہے۔ نہ ہی یہ چند الفاظ میں بتایا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے مثالیں ہیں ترکی کی۔ ملائشیا کی۔ انڈونیشیا کی اور سب سے بہتر روانڈا کی۔ جہاں ہزاروں لوگ خانہ جنگی میں مارے گئے مگر پھر مفاہمت میں ہی انہوں نے ملک کی بقا ڈھونڈی۔ فرانس کی یہ کالونی اب افریقہ میں ترقی کی مثال بنی ہوئی ہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ریاستوں میں نشاۃ ثانیہ، عظمت رفتہ کی بحالی۔ ایسی بے چینی، ایسی معاشی بد حالی کے بعد ہی ہوئی ہے۔ وقت آچکا ہے۔ سویرا کسی کے روکے نہیں رکا ہے۔ جو خوشی پاکستانیوں کے مقدر میں لکھی ہے۔ وہ انہیں واپس مل جائے۔ پاکستانی ایسا کر سکتے ہیں۔ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری قومیں جو کر چکی ہیں، کر رہی ہیں۔ ہم پاکستانی بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کر دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ