سیاست کے دروازے بند ہیں، مکمل ڈیڈ لاک ہے، بحران کے حل کی کوئی صورت نہیں، محاذ آرائی دونوں فریقوں کا چلن بن گیا ہے، 24 نومبر کو فائنل کال کا دن ہے، مذاکرات میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، جلسے جلوس سیاست کا حصہ ہیں مگر خون خرابہ ہوا تو سیاست اور تلخ ہو جائے گی ، نفرتیں مزید بڑھ جائینگی۔ گو تمنائیں مر چکی ہیں اور امید کا ٹمٹاتا سا چراغ بھی جلتا نظر نہیں آتا مگر اِس دلِ خوش فہم کو یقین ہے کہ راستہ اب بھی ہے۔ ہر ناامیدی کے ساتھ امید وابستہ ہوتی ہے، ہر مشکل کیساتھ ہی آسانی جڑی ہوتی ہے ،پیچیدہ مسائل کے اندر ہی اس کا سادہ حل پوشیدہ ہوتا ہے، اسلئے اب بھی راستہ اور وہ بھی انتہائی آسان صاف نظر آ رہا ہے بس شرط صرف اتنی ہے کہ آنکھیں کھول کر آئینہ دیکھ لیا جائے اور پھر جو آئینہ کہہ رہا ہے اس پر عمل کر لیا جائے۔ راستہ بتانے سے پہلے ایک واقعہ سن لیں۔
کوٹ مٹھن کے خواجہ غلام فرید (1845تا 1901ء) نواب آف بہاولپور صادق عباسی کے مرشدتھے ، نواب صاحب ایک عالم دین سے ناراض ہوئے، اسے ریاست بدر کرنے کا حکم دیا، وہ عالم دین اِدھر اُدھر سے مایوس ہو کر خواجہ فرید کے پاس پہنچا اور انہیں نواب صاحب سے سفارش کرنے کوکہا ۔خواجہ فرید نے اپنے مرید بادشاہ کو تاریخ کا مختصر ترین خط لکھا ’’صادق ۔ زیر تھی، زبر نہ تھی، متاں پیش آمدی ہووی‘‘۔ ظہور دھریجہ کی کتاب ’’خواجہ فرید کی شاعری کا اردو روپ‘‘ میں ان اشعار کی تشریح یہ کی گئی ہے بادشاہی کی مستی میں اپنے آپ کو زبر(جابر) اور فرعون نہ بنائو، زیر کی طرح عاجزی اور انکساری اپنائو،ایسا نہ کیا تو پھر پیش آنیوالے خدا کے قہر سے بچ نہ سکو گے۔ خواجہ فریدکے بامعنی اور مختصر ترین خط کو پڑھتے ہوئے مجھے انگریزی کے مشہور اور اپنے پسندیدہ روحانی شاعر جان ڈن (JOHN DONNE) کا اپنی زندگی پر مختصر ترین تبصرہ یاد آگیا JOHN DONNE/ ANNE DONNE/ UNDONE۔ ’’یعنی جان ڈن (وہ خود) این ڈن (یعنی اسکی نوجوان محبوبہ اور بیوی) اور دونوں کی ناتمام زندگی UNDONE‘‘۔ بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو مختصر ترین لفظوں میں ہزاروں، لاکھوںصفحات کا نچوڑ پیش کر دیتے ہیں۔ خواجہ فرید نے زندگی گزارنے کا جو سادہ ترین طریقہ پیش کیا وہی آج کے بحران کا حل ہے۔ یعنی دونوں فریق زبر نہ بنیں، ضد نہ کریں، زیر بنیں یعنی لچک دکھائیں، جھک جائیں اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں ۔اگر حکمران، مقتدرہ اور عمران خان زبر بنے رہے تو بحران بڑھتا جائیگا اور بالآخر سب کو کھا جائیگا زیر بن گئے ، لچک دکھائی تو حل بہت سادہ ہے۔ دوسال قبل اس حقیر اور رُوڑا کوڑا صحافی نے سیاست کے بحران کا واحد حل مصالحت کو سمجھتے ہوئے بار بار اس بات کا اعادہ کیا تو نونی، انصافی اور عسکری بھائیوں نے بہت ناک بھوں چڑھائی، پوری قوم اس وقت آستینیں چڑھائے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے چکر میں تھی اسلئے وہ کیوں کسی ناچیز کی سنتی۔ فریقین میں سےہر کوئی مکمل اقتدار ،مکمل طاقت اور مکمل اختیار کا خواہاں تھا اور اب بھی ہے۔ ایسے میں لچک کون دکھاتا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ نونی حکمت ساز اس دن سے ناراض ہیں کہ مصالحت کا مطلب تو عمران کیلئے ریلیف ہے۔ انصافی تو خیر کسی کو بھی نہیں مانتے، اپنوں کو بھی نشانے پر رکھتے ہیں ہم حقیر لوگ کس کھیت کی مولی ہیں چنانچہ انصافیوں نے الزامات کے وہ طومار باندھےکہ خدا کی پناہ اور آج تک گالیاں اور دشنام جاری ہے۔ رہ گئے عسکری بھائی وہ تو ہر ایک کے کوتوال ہیں ان کے آموختے سے ہٹ کر ہونیوالی ہر بات غداری ہے۔ اس دربار تک ویسے بھی میری رسائی نہیں۔ ان میں سے کئی سیاسی مصالحت کو چونکہ اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں چنانچہ وہ کیوں اسکی حمایت کرتے؟ ہم چند دوستوں کو اس بحران کی شدت اورنتائج کا بہت شدید احساس تھا اسلئے ہم نے وکٹ سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی۔ یہ حقیر خود لندن میں میاں نواز شریف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی کہ آپ کا اقتدار آ رہا ہے انتقام کا دائرہ ختم ہونا چاہیے انہیں میری بات پسند نہ آئی اور پھر اسکے بعد انہوں نے میری بات سننا ہی بند کردی۔ عمران خان صاحب کے پاس میں خود بھی حاضر ہوا۔ مجیب الرحمٰن شامی صاحب کی قیادت میں وفد لیکر گئے پھر جناب امتیاز عالم کے ہمراہ بھی ان کی خدمت عالیہ میں زمان پارک حاضر ہوئے اور بار بار ان سے درخواست کی کہ مصالحت کی طرف قدم بڑھائیں نہیں تو محاذ آرائی بڑھے گی۔ مگر وہاں سے بھی کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ عسکری بھائیوں کو کالم کے ذریعے لکھ لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملک کا مستقبل سیاسی اور معاشی استحکام سے جڑا ہے، سیاسی مصالحت ہوگی تو معاشی استحکام آئیگا اور پھر مستقل رہیگا۔ امرتا پریتم نے وارث شاہ کو غائبانہ طور پر مخاطب کرکے کہا تھا کہ پنجاب کی لاکھوں بیٹیاں آپ سے کہہ رہیں کہ وارث شاہ اٹھو اور پنجاب میں بہنے والے خون کو روکو۔یہ حقیر بھی کوشش کرتا رہا۔ نہ امرتا پریتم وارث شاہ کو جگا سکی اور نہ یہ ناچیز تین طاقتوں کو سمجھا سکا، اسی لئے آج پھر ہم نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔
میری عاجزانہ رائے میں اب بھی راستہ ہے، انتہائی آسان اور سادہ۔ صرف نیت سے کھوٹ ختم کریں اور لچک پیدا کریں۔ سب سے بڑے دو مسئلے ہیں 9 مئی کے دَنگے اور 8فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات۔ 9 مئی کے حوالے سے سنا ہے کہ فوجی عدالتیں فیصلے سنا چکی ہیں مگر سپریم کورٹ کے حکم نے انہیں روکا ہوا ہے بہتر ہو گا کہ 9 مئی کے تمام مقدمات پر نظرثانی اور ملزموں کیخلاف اقدامات کیلئےسپریم کورٹ کی ذمہ داری لگائی جائے، میرا خیال ہے کہ یہ حل سب کیلئے قابل قبول ہوگا۔ دھاندلی کے حوالے سے میں نے 8 فروری کے بعد سے تجویز دی تھی کہ قومی اسمبلی کے اندر سے دھاندلی کمیشن پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور جواباً تحریک انصاف موجودہ پارلیمان کوتسلیم کرےاورساتھ ہی اگلے انتخابات کو منصفانہ بنانے کی ضمانت مانگ لے۔ عمران خان کو فوری طور پر بنی گالہ میں نظر بند کردیا جائے اور انہیں ملکی حالات پر اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم کی طرح بریفنگ دی جائے۔ وہ ضدی ہیں، خود سر ہیں مگر غدار نہیں، ملک سے محبت کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ قائل ہو جائیں۔ اگر ابتدائی مصالحت ہو جائے تو پارلیمان کے اندر ہی سے قومی حکومت بنائی جائے جس میں سب جماعتوں کی نمائندگی ہو۔ یہ قومی حکومت معاشی پالیسیوں کے استحکام کیساتھ اگلے انتخابات کو فری اینڈ فیئر بنانے پر کام کرے۔ اس فارمولے پر عمل سے فوج اور تحریک انصاف کے معاملات خود بخود حل ہو جائینگے، سیاسی کشیدگی ختم ہو جائیگی۔ پی ٹی آئی کے بانی اور پارٹی کو ریلیف مل جائے گا، سیاسی استحکام آئیگا تو معیشت پر اور بھی بہتر اثر پڑے گا۔ اس حقیر کو عقل کل ہونے کا دعویٰ نہیں، یہ ایک عاجز کی تجویز ہے۔ رد کرنا ہے یا قبول آپ کی مرضی ہے ۔بقول قتیل ؔشفائی:
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دِل جلا کے سر عام رکھ دیا
بشکریہ روزنامہ جنگ