پاکستان کے باشعور عوام خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوان نسل فکری، نظری اور عملی لحاظ سے اپنے حکمران طبقے کی نسبت ایک مہذب جمہوری اور فلاحی سوسائٹی کے مسلمہ اقدار سے زیادہ اور گہری وابستگی کی حامل ہے ان کا اس نظریے پر پختہ یقین ہے کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری اور قانون کی حکمرانی پر ایمان رکھنے والا ملک بننا چاہیے ایسا ملک جہاں میرٹ، اہلیت اور وطن عزیز سے سچی کمٹمنٹ کا دور دورہ ہو _عوام جس پارٹی کو ووٹوں کی طاقت سے منتخب کریں اسے اقتدار سونپا جائے نہ کہ فاطمہ جناح سے لے کر عمران خان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے کیونکہ وہ مختلف سیاسی ترجیحات رکھتے تھے، جو ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہے دس کروڑ سے زائد نوجوان چاہتے ہیں کہ سیاست میں بھی ان کو کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داریوں کو ختم کرنا چاہیے حکمرانوں اور طاقت ور ایلیٹ کے لیے بھی جوابدہی کے ویسے ہی کڑے معیار ہوں جیسے مغربی ممالک میں ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں طالع آزما فوجی اور سول ڈکٹیٹرز نے اس ملک میں ایلیٹ ازم اور بونا پارٹ ازم کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ جہاں عوام کی حیثیت محض کیڑے مکوڑوں جیسی ہے ایلیٹ ازم اور اقربا پروری کے کلچر نے پاکستان کے کمزور طبقے کے عوام کو تمام تر سیاسی، معاشی، انسانی اور قانونی حقوق سے یکسر محروم کر دیا ہے رائٹ سائزنگ کے نام پر دوسرے تیسرے سکیل کے عارضی ملازمین جن میں چپراسی، آیا، ڈرائیور ز اور رائیڈرز شامل ہیں انکو تو ملازمتوں سے روزانہ فارغ کیا جا رہا ہے تا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات کم کیے جائیں مگر انکی جگہ ایم پی سکیلز میں دس لاکھ سے لے کر بیس لاکھ تک ریٹائرڈ سول اور فوجی بیوروکریٹس کو اعلی مناصب دیے جا رہے ہیں وہ نئ ملازمتوں کی تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ پشن اور اس سے منسلک مالی فوائد بھی سمیٹ رہے ہیں اعلی عدلیہ کے ججز کے ماہانہ پیکچز 20 لاکھ سے بڑھ گئے ہیں اور گھر، گاڑی، مفت بجلی گیس، ڈرائیور، پی اے، پٹرول اور ٹیکسوں سے استثناء اور سال میں تین چار ماہ کی چھٹیاں الگ ہیں، اسکے علاوہ اعلی سرکاری ملازمین کی طرح ججز کو بھی اسلام آباد میں مہنگے پلاٹس معمول نرخوں پر فیڈرل ہا ؤسنگ سوسائٹی آلاٹ کر رہی ہے اور جو ججز سپریم کورٹ میں ایڈہاک پر کام کر رہے ہیں ان کی تنخواہیں اور پنشن چالیس سے پچاس پچاس لاکھ روپے ماہانہ ہے چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی اسامیوں کی تعداد چونتیس کرنے سے اربوں کے آخراجات درکار ہیں کیا ملازمتوں میں ایکسٹنشن، ری ایمپلائمنت، جنیوا میں سرکاری خرچ پر علاج معالجے اور ائر فورس کے جہاز پر چیف سیکرٹری سمیت ملازمین کی فوج در فوج، باکو میں سرکاری اہلکار وں اور ان کے خاندانوں کی کوپ 29 کی کانفرنس کے موقع پر سیرو تفریح پر اخراجات تو حکومت کے لیے جائز ہیں مگر 15 ہزار روپے ماہانہ اقتصادی امور ڈویژن میں عارضی ملازمہ آپا رقیہ کی ملازمت سے برطرفی رائٹ سائزنگ کے نام پر ضروری ہے کیونکہ دوسرے تیسرے سکیل کے ملازمین کو برطرف کرنے سے ہی تو آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہو نگی پہلے کوئی چھوٹا ملازم دوران سروس فوت ہو جاتا تو پولیس، ایف آئی اے سمیت اکثر اداروں میں ان کے کسی ایک بچے کو نوکری دے دی جاتی تھی مگر اب یہ سہولت بھی رائٹ سائزنگ میں ختم کر دی گئی ہے ہزاروں سکولز کو پرائیویٹ این جی او از کے حوالے کر کے ان کے اساتذہ کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے انہیں پنشنرز سے محروم کر دیا گیا ہے _تحریک پاکستان کا ایک اہم مقصد پاکستان کو ایک فلاحی، جمہوری ریاست بنانا بھی تھا یعنی عوام کے لیے عدل اجتماعی کا نظام قائم کرنا تھا انہیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں تمام دولت، وسائل اور طاقت پر ایک مخصوص اقلیتی طبقے کا قبضہ ہو گیا ہے جس نے اپنے مفادات کے لیے نہ تو اس ملک میں حقیقی جمہوری روایات کو قائم ہونے دیا ہے اور نہ ہی جوابدہی اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کو پروان چڑھنے دیا ہے بونا پارٹ ازم، ایلیٹ ازم اور طاقت ور افراد کی ہٹ دھرمی سے ملک دو لخت ہو گیا مگر ہماری روش ابھی بھی نہیں بدلی ہے ہم ڈنڈے کے زور پر دوسروں کا حق چھیننے کو جائز سمجھتے ہیں جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے سرمایہ داروں جاگیرداروں، صنعت کاروں اور مختلف مافیاز کا نسل در نسل راج ہے سرکاری عہدیداروں کو پلاٹوں، زمینوں، اعلی مناصب اور ان کے بچوں کو بھی اعلی عہدوں پر نوازنا معمول کی مشق ہے سرکاری پروٹوکول اور سرکاری خرچ پر اہل خانہ کی سیکیورٹی اور بیرونی دوروں کو استحقاق سمجھا جاتا ہے یہاں کو ئی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی بات نہیں مانتا ہے کہ پاکستان میں ناجائز طور پرساڑھے 17 ارب ڈالرز سالانہ ایلیٹ طبقے پر مراعات کی صورت میں خرچ ہوتے ہیں جہنیں نہیں ہونا چاہیے مگر رنگیلے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے انہیں دکھائی ہی نہیں دیتا ہے کہ دس کڑور افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ اگر ایک وقت کا کھانا انہیں ملا ہے تو کیا دوسرے وقت کا نصیب ہو گا دوکڑوڑ ستر لاکھ بچے سکول جانا افورڈ نہیں کرتے ہیں چند روپوں کے عوض چائلڈ لیبر کرنے پر مجبور ہیں دو تہائی آبادی ان پڑھ ہے پندرہ لاکھ بچےسالانہ اپنی نوزائیدہ عمر میں اللہ کی پیارے ہو جاتے ہیں کڑووں افراد صحت، صفائی اور سینی ٹیشن کی سہولیات سے محروم ہیں مگر حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں کہ بس قرضے لیے جائیں، عیش و عشرت کرتے جائیں اور بچاسی ہزار ارب کے مجموعی قرضہ جات اور 130 بلین ڈالرز کے بیرونی قرضے لیے کر دعوے کریں کہ پاکستان میں معاشی حالات بہتر ہو گئے ہیں میکرو اکنامک کے مثبت اشاریے یا سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس کی بلندی سے عوام کی اکثریت کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوتا ہے ان کا معیار زندگی روز گار کی فراہمی اور مہنگائی کی کمی سے ہوتا ہے سیاسی استحکام اور دہشت گردی پر قابو پانے سے ہو گا بلوچستان اور کے پی کے نوے فیصد علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے دہشت گردوں کا راج ہے ان علاقوں میں ہائی ویز پر سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے روزانہ ہماری فوج اور سیکورٹی اداروں کے علاوہ عام شہری ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا اور شہید ہو رہے ہیں جو ریاست اپنے عوام کو دو وقت کی روٹی کی ضروریات پوری کرنے کی اہل نہ ہو، ہنر مندوں کو روزگار نہ دے بلکہ جو نوجوان آئی ٹی انڈسٹری میں کام کر کے اپنے لیے کچھ کمانا چائیں، ملک کے لیے زرمبادلہ لانے کے لیے کوشاں ہوں ان کے کبھی انڑنیٹ سلو کر دیں، کبھی بند کر دیں، کبھی وی پی این اور ٹویٹرز بند کر دیں تو کیا اسطرح وہ تا حیات اس ملک کے عوام کو غلام بنائیں رکھیں گے اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا ہے یہاں کوئی کسی کو اس کی مرضی کے خلاف تابع نہیں رکھ سکتا ہے پاکستان کو شمالی کوریا یا میانمار نہ سمجھا جائے اگر پاکستان میں یہ غیر معمولی معاشی اور سیاسی عدم مساوات کے حالات برقرار رہےگی اور حکمران طبقے نے عوام کی اکثریت کو اس کے آہینی، قانونی اور جمہوری حق سے محروم رکھا تو کب تک عوام اپنے ٹیکسوں کی کمائی سے حکمرانوں کے پرائیویٹ لندن، سویٹز لینڈ کے دوروں کے بوجھ اٹھائیں گے اور ان کے شاہانہ طرز زندگی کو برداشت کر پائیں گے بہت سارے نوجوان ملک دشمنوں کے ساتھ ان نا انصافیوں کے رد عمل کی وجہ سے مل جاتے ہیں جو کہ ہم سب کے لیے لمحہ فکر یہ ہے میں جب اس ملک میں اپنے اور عام عوام کی مشقت بھری زندگی کو دیکھتا ہوں اور ایلیٹ طبقے کی عیاشیوں اور اللے تللوں کو دیکھتا ہوں جو دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں تو یہی خیال آتا ہے
یہ کس مقام پر لے آئی زندگی راہی
کہ ہر قدم پر عجب بے بسی کا عالم ہے
Load/Hide Comments