کسی بھی معاشرے میں رہنے والے افراد کے طرز زندگی، طرز فکر اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں ہر قوم کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے جو صدیوں کے سماجی ارتقاء سے جنم لیتی ہے تہذیب اور معاشرتی انسان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں زبان، آلات پیداوار، رہین سہن کے طریقے، علم وادب، رسوم و روایات اور جدید دنیا کے لحاظ سے معاشی، سیاسی اور عدالتی ضابطے اور قوانین، سائنس اور ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا تہذیب کے مختلف مظاہر کہلاتے ہیں تاہم یہ بدیہی حقیقت ہے کہ کہ کسی بھی قوم کی تہذیب ہمہ وقت قائم دائم نہیں رہتی ہے تاوقتیکہ وہ تبدیلی کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتی چلی نہ جائے اگر ہم ماضی کی تہذیبوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہ طاقت ور خارجی عناصر کی برتر جنگی اور معاشی قوت کے ہاتھوں بے شمار شاندار تہذیبیں ملیا میٹ ہو گئیں ایک زمانہ تھا کہ مال غنیمت پر پرورش پانے والی خانہ بدوش قوموں کی وحشی تہذیب کا کسی کے پاس کوئی توڑ نہ تھا سخت کوش زندگی کے ڈسپلن نے انہیں فولادی اور وحشی بنا دیا تھا وسط ایشیا کے آریا، یورپ کے نارمن، منگولیا کے تاتار، عرب کے بدؤں اور عثمانی جنگجوؤں نے تلوار کے زور پر دنیا میں کڑووں انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا وہ جدھر کا رخ کرتے دنیا ان کی بربریت کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دیتی مگر جب صنعت و حرفت نے بندوق، گولی اور توپ ایجاد کی تو لوٹ مار پر پرورش پانے والی وحشی تہذیبیں زوال پذیر ہونے لگیں اگر ہم ہندوستان پر غیر ملکی حملہ آوروں کی یلغاروں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے پاس مالی اور افرادی وسائل کی کمی نہ تھی مگر یہاں کے باشندوں کی مجہول فطرت، زندگی سے فرار ہونے والے مذہبی فلسفےاور آواگون کے چکر میں دنیاوی حقیقتوں سے پہلو تہی نے یہاں کے لوگوں کو حملہ آوروں کا تر نوالہ بنا دیا اور طاقت ور قدیم تہذیب رکھنے کے باوجود یہاں کے لوگ آسانی سے زیر ہوتے رہے آریا وسط ایشیا سے آکر ان پر قابض ہوگئے سکندر اعظم، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، امیر تیمور، بابر، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور انگریزوں نے بڑی آسانی سے ہندوستان کو مال غنیمت سمجھ کر خوب لوٹا کیونکہ توپ، گولوں اور بندوق کے سامنے محض گھوڑے ہاتھیوں پر بیٹھ کر تلوار سے دشمن کو شکست دینا مشکل تھا اسی طرح یونان کو ایک وقت میں تہزیب کے گہوارے کی حیثیت حاصل تھی مگر وہ رومیوں کی طاقت ور آزادانہ معیشت کا مقابلہ نہ کر سکے اور یونانی تہذیب ٹھپ ہو گئ. مگر بعد میں رومیوں نے بھی غلاموں کے سر پر معاشی سرگرمیوں کو چلانا شروع کر دیا تو آنکی تہذیب بھی آزاد قوموں کے حملوں سے تہہ و بالا ہو گئ اگر آج ہم کسی بھی قدیم اور جدید قوم کی تہزیبی اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انسانی آزادی درحقیقت معاشی آزادی کی مرہون منت ہے معاشی ترقی ہی کسی قوم کے تہذیب کے فروغ پذیر ہونے کی اصل قوت محرکہ ہے آج کی کمپیوٹر ایج کے انقلابات اور سائنسی علوم کی جدت پسندی اور ٹیکنالوجی کے اختراعات نے زندگی کے ہر شعبے کے نئے کوڈز مرتب کر دیئے ہیں سیاست معیشت سماجیات، اخلاقیات، کلچر، فیشن روایات اور طرز زندگی کے نت نئے صابطے اور ڈسپلن وجود میں آگئے ہیں جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات نے اعلی معیارات کے ذریعے پرانی ضروریات پوری کرنے والی ایجادات اور ان سے وابستہ قدروں اور ڈسپلن کو مسمار کر کے رکھ دیا ہے جدید سائنسی تحقیق اور سوشل میڈیا کی ایپس نے انسانی تہذیب ثقافت پر مشین کو حاوی کر دیا ہے نیکی اور بدی کے تصورات کو بدل دیا ہے پرانی نسل اپنی آزادانہ سوچ و فکر کی وجہ سے پرانی نسل کی منافقت اور دو عملی کے خلاف شدید احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہے پاکستان کے کرپٹ ججز جرنیلوں اور سیاست دانوں کو عوام کی بے پناہ نفرت اور غیض و غصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہ اپنے ذہنی افلاس اور کردار کے کھوکھلے پن کو ختم کرنے کی بجائے ان احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو عمران خان کا حامی اور یوتھیا کہ کر مزید جلتی پر تیل ڈال رہی ہے آج کا نوجوان کبھی بھی ایسے کسی بھی شخص کی عزت و تکریم نہیں کرے گا جو تضادات کا مرقع ہو کیونکہ اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے نوجوان کا ویلیو سسٹم جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی نے مرتب کیا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تہذیب کی آبیاری حقائق پر نمو پاتی ہے ناکہ پرانی نسل کی وعظ و تبلیغ پر سائنسی تہذیب میں مسابقت اصل جوہر حیات ہے یہ صرف دو نیکیوں پر ایمان رکھتی ہے ایک وہ نیکی جو مقابلے کے لیے بہتر تنظیم پیدا کرتی ہے دوسری وہ نیکی جو اس تنظیم کو ایجادات کے بہتر ہتھیاروں سے لیس کرتی ہے آج کی دنیا میں انسانی خدمات کے اعلی نظام سائنسی ایجادات کی بدولت دیکھنے کو مل رہے ہیں ان ایجادات کی بدولت اربوں ڈالرز کی دولت نے جنم لیا ہے اور بل گیٹس اور وارن بفٹ اپنی دولت کے بڑھے حصے کو انسانی فلاح وبہبود پر خرچ کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اسرائیل جیسے ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانی نسل کشی کے لیے استعمال کر رہے ہیں آج سماجی تعلقات کا تعین کمیونیکیشن کے جدید ذرائع سے ہو رہا ہے جمہوریت، روایات، اعلی تعلیم، فنی . مہارت اور فلاحی مملکت کی نعمتیں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت ہیں آزاد جمہوری معاشروں میں اجداد پرستی، سیاسی موروثیت کی جگہ میرٹ اور قابلیت کو ترجیح دی جاتی ہے سیکولر ازم اور انٹرنیشنل ازم اور انسانی عظمت کے ذریعے نظام حیات ترتیب پا رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم پاکستان کی معیشت، سیاست اور سماجیات میں طاقت، لاقانونیت اور جبر کے ذریعے لوگوں کو غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور جو احتجاج کرے، اپنا آئینی اور قانونی حق مانگے، بلاول اور مریم کی سیاسی غلامی سے انکار کرے وہ بدتمیز ٹھہرے اسطرح تو ایوب،بھٹو ضیاء اور مشرف کے خلاف احتجاج کرنے والی آج کی ادھیڑ عمر نسل جوانی میں بے حد بدتمیز تھی ان میں اکثر یت ریاست کے اعلی عہدوں پر فائز ہے ہم کب تک غیر اقتصادی عصبیتوں کے سہارے زمینی حقائق سے نظریں چرا کر الفاظ کی مداری گری اور جھوٹ کے سہارے اقتدار پر گامزن ہوتے رہیں گے اگر حکمرانوں نے عوام کی منزل کھوٹی کرنے کی تراکیبوں کے ذریعے عوام کے حقوق کو سلب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو ایک دن یہی تراکیبں ان کے گلے کا ہتھیار بن جائیں گی کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسانوں کی سماجی قوت میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے وٹس ایپ کے ذریعے تحریک انصاف الیکشن جیت جاتی ہے حالانکہ الیکشن کمیشن اور قاضی نے بلے کانشان واپس لے کر سمجھا تھا کہ کام بن گیا مگر سائنس اور ٹیکنالوجی نے ان کو شکست دے دی اس ٹیکنالوجی نے سب کے چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے لہذا اس سائنسی تہذیب کے دور میں صاحبان اقتدار نے اپنے طور اطوار درست نہ کیے تو وہ ایک دن تماشا جائے عبرت بن جائیں گے
Load/Hide Comments