اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہاہے کہ فوجداری الزام کے حوالہ سے ملزم پر قانون کاماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ہم درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیں گے تواس کاٹرائل میں نقصان ہوگا۔ ایف آئی اے درخواست گزار کے خلاف جاری 8انکوائریوں کی تحقیقات30روز میںمکمل کرے اگر 30روز میں تحقیقات مکمل نہ ہوں تودرخواست گزاردوبارہ سپریم کورٹ ضمانت کے لئے رجوع کرسکتا ہے۔ ہم نے بات کی ہوئی ہے کہ خاندانی معاملات میں حقائق کے تعین کے حوالہ سے معاملات کونہیں چھیڑنا چاہیئے، یہاں تک کہ اس میں ہائی کورٹ کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، اس حوالہ سے جسٹس عائشہ اے ملک نے حال ہی میں مستند فیصلہ دیا ہے ہم اس فیصلہ کے خلاف نہیں جاسکتے۔درخواست گزار تصورنہیں کرسکتے کیس لگانا کتنا مشکل کام ہے۔جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے ریکارڈ38منٹ میں 30کیسز کی سماعت مکمل کرلی۔
جبکہ دوران سماعت وکیل خالد محمود خان کاچیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مزہ آرہا ہے آپ کی عدالت میں ہنس ، ہنس کرکام ہورہا ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ منگل کے روز فائنل کازلسٹ میں شامل 30کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ایف آئی اے کے زیر حراست ملزم غلام سرور کی جانب سے ضمانت کے حوالہ سے دائر دو درخواستوںپر سماعت کی۔ درخواستوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے اے ایم ایل سی ، اسلام آباد، وقاص منظور اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزارکی جانب سے راجہ رضوان احمد عباسی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس اورایف آئی اے حکام پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھاکہ ایف آئی اے نے چالان دائر کردیا ہے، درخواست گزارنے طبی بنیادوں پر ضمانت بعد ازگرفتاری دائر کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزار درخواست ضمانت بعد ازگرفتار ی مانگ رہے ہیں۔
وکیل درخواست گزار راجہ رضوان عباسی کاکہناتھاکہ میں عدالت کے اطمینان کے مطابق ضمانتی مچلکے جمع کروادیتا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ فوجداری الزام کے حوالہ سے ملزم پر قانون کاماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ درخواست گزارکی دیگر جائیدادیں بھی تلاش کررہے ہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ ابتدائی انکوائری کاکیا نتیجہ نکلا۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھاکہ 8انکوائریاں کرکے آٹھ جائیدادیں تلاش کرچکے ہیں جبکہ 8مزید انکوائریاں جاری ہیں، 8انکوائریوں کے حوالہ سے تحقیقات جاری ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیں گے تواس کاٹرائل میں نقصان ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہم ضمانت نہیں دیتے، ایف آئی اے زیرالتواانکوائریوں کے حوالہ سے فیصلہ کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایف آئی اے کو30روز دے دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم یہ درخواستیں نمٹادیتے ہیں اور 8انکوائریوںکی تحقیقات مکمل کرنے کے لئے 30روز کاوقت دے دیتے ہیںاگر ایف آئی اے نے انکوائریاں مکمل نہ کیں تودرخواست گزاردوبارہ آجائیں، ہم درخواست گزارکے لئے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔
چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ موجودہ ایف آئی آرز کے علاوہ بھی 8انکوائریاں درخواست گزار کے خلاف جاری ہیں، ایف آئی اے 30روزمیں تحقیقات مکمل کرے، ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات مکمل کرنے میں ناکامی کی صورت میں درخواست گزاردوبارہ درخواست دائر کرسکتے ہیں۔عدالت نے دونوں درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادیں۔ بینچ نے غلام فرید کی جانب سے خالدہ بی بی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے بات کی ہوئی ہے کہ خاندانی معاملات میں حقائق کے تعین کے حوالہ سے معاملات کونہیں چھیڑنا چاہیئے، یہ حقائق کے حوالہ معاملہ ہے اس کو رہنے ہی دیں، یہاں تک کہ اس میں ہائی کورٹ کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اس حوالہ سے جسٹس عائشہ اے ملک نے حال ہی میں مستند فیصلہ دیا ہے ہم اس فیصلہ کے خلاف نہیں جاسکتے۔عدالت نے غیر مئوثر ہونے کی بنیاد درخواست نمٹادی۔ بینچ نے محمد اظہر ملک کی جانب سے مسمات رافعہ نعیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزارکے وکیل خالد محمود خان کاچیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مزہ آرہا ہے آپ کی عدالت میں ہنس ، ہنس کرکام ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے مسمات سدرة المنتیٰ، مسمات خوشبو، مریم زین، مسمات حرا یاسر، مسمات عافیہ جلیل، مسمات ارم شہزادی، مسماعت کرن عکاش، شکیلہ عکاشہ، مسمات مریم بی بی، مسمات مہوش اور مسمات زرینہ کی جانب سے دائر درخواستیں بغیر دلائل سنے ہی منظور کرلیں۔ عدالت نے محمد بلال کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لیہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر کل (بدھ)کے روز تک سماعت ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے گلزارشاہ اوردیگر کی جانب سے فرید اللہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزار تصورنہیں کرسکتے کیس لگانا کتنا مشکل کام ہے۔ بینچ نے احمد بخش کی جانب سے محمد مذیر اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھاکہ فیصلہ جسٹس شاہد بلال حسن نے دیاہوا ہے اس لئے وہ یہ کیس نہ سنیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ کیس دوبارہ ایسے بینچ کے سامنے لگایا جائے جس میں جسٹس شاہد بلال حسن شامل نہ ہوں۔ بینچ نے مسمات زرینہ بی بی کی جانب سے محمود احمداوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آئندہ بدھ کے روز ملتوی کرتے ہوئے عدالتی عملے کوہدایت کی کہ دہ درخواست گزارکے وکیل کودبارہ نوٹس بھجوائیں۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مبارک علی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
عدالت نے قراردیا کہ آئندہ سماعت تک فریقین اسٹیٹس کو برقراررکھیں گے۔بینچ نے وارشمین خان کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے مشتاق احمد ڈار اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست 10روز زائدالمعیاد ہے اور تاخیر کی معافی کے حوالہ سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کواس حوالہ سے قانون کاعلم نہیں تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قانون سے لاعلمی کو درخواست تاخیر دائر کی وجہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔جبکہ بینچ نے اعجاز احمد کی جانب سے ایاز شاہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔