اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔ ان کابھی شکریہ جو آ ج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں، بہت بہت شکریہ۔
ان خیالات کااظہار چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر1میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فل کورٹ ریفرنس ساڑھے 10بجے شروع ہونا تھا تاہم 20منٹ کی تاخیر سے 10بجکر50منٹ پر شروع ہو جوکہ دن 11بجکر55منٹ پر ختم ہوا۔ فل کورٹ ریفرنس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پربراہ راست دکھائی گئی۔ فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحیی خان آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججزجسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی، ایڈہاک ججز جسٹس سردار طار مسعود ، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، شریعت ایپلٹ کورٹ کے ججز جسٹس خالد مسعود اور جسٹس ڈاکٹر قبلہ ایاز شریک ہوئے ۔ چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور خاندان کے دیگر افراد ، سپریم کورٹ کے وکلا، عدالتی عملہ اور صحافی شریک ہوئے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔فل کورٹ ریفرنس کی کاروائی رجسٹرار سپریم کورٹ مس جزیلہ اسلم نے چلائی۔الوداعی ریفرنس کا آغازقاری محسن کی جانب سے قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیاجس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ چیف جسٹس بننے سے قبل بھی قاضی صاحب کا بطور وکیل نمایاں اور کامیاب کیرئیر رہا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فل کورٹ ریفرنس سے اُردو میں خطاب کیا۔ چیف جسٹس نے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک ، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت ، دوستوں، وکلاء اور صحایفوں کاشکریہ ادا کیا۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ان کابھی شکریہ جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ شکر ہے میری اہلیہ تقریب میںموجود ہیں وہ لوگوں کی جانب سے میری کی جانب سے تعریف پر اعتبار نہیں کرتی تھیںآج خود انہوں نے تعریف سن لی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چوہدری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب افتخار محمد چوہدری نے مجھے بلایا تومجھے ڈر تھا کہ پتا نہیں کیوںبلایا ہے میں انگریزی اخبار میں کالم لکھتا تھا میں نے شاید کوئی بات بری لگ گئی ہے، میں ریٹرن ٹکٹ کرواکرکراچی سے آیا تھا اورافتخار چوہدری نے کہا کہ کوئٹہ جائو اورجاکربلوچستان ہائی کورٹ سنبھالو۔ میں نے افتخار چوہدری کوجواب دیا کہ میں اہلیہ کو میرے معاملات میں ویٹو پاور حاصل ہے اس لئے ان سے پوچھے بغیر عہدہ قبول نہیں کروں گا تاہم میری اہلیہ اور دوستوں نے کہا کہ عہدہ قبول کرلوں۔ میں نے افتخار چوہدری سے کہا کہ میں تواپنا ٹوتھ برش بھی ساتھ نہیں لے کرآیا، راتوں رات ہماری زندگی تبدیل ہو گئی اور ہمیں کوئٹہ جانا پڑا۔انہوںنے کہا کہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے، ججز کو تعینات کیا اور ایک غیرفعال عدالت عالیہ بلوچستان کا کام شروع ہوا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلی سے 10ویں تک میں بلوچستان میں تعلیم حاصل کی اوراس کے بعد کراچی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا پڑا۔ پشین میں میری پیدائش ہوئی اور جب میری عمر 16سال تھی تومیرے والد انتقال کرگئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسی ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسی انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمعیل پائلٹ بنے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ(نواسی)نے مجھے کہا کہ میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مارگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالی نے جانور اور پرندوں کا بھی گھر تھا ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ماحول اچھا نہ رہا تو جانوروں کیا انسانوں کا بھی دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ میںبلوچستان کے ہرضلع میںاپنی اہلیہ کے ساتھ گیا، میری اہلیہ نے میرے ساتھ کاموں میں حصہ بٹایا اورکوئی معاوضہ بھی نہیں لیااورانہوں نے کہا کہ میرانام بھی کسی کونہیں پتالگنا چاہیئے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میرے ڈرائیور شعبان تھے جنوں نے بہت سے چیف جسٹسز کے ساتھ کام کیاتھاان کاانتقال ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میرے بیٹے نے کچھ عرصہ لاہور میں 75ہزارروپے کی نوکری کی تاہم انہوں نے کہا بابااس میںمیرا گزارانہیں ہوتا جس کے بعد وہ لندن چلے گئے۔ میرے بیٹے نے فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے ساتھ جو مدد کرتے ہیں وہ بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، جیسے نامزد چیف جسٹس نے کہا انہوں نے میرے جیسے خطرناک ریچھ کے ساتھ گزارا کیا۔ چیف جسٹس نے اپنے سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد خان کاشکریہ ادا اور کہا ان کا بھی میرے ساتھ ہی عدالت میں آخری دن ہے اوروہ واپس چلے جائیں گے۔بلوچستان سے آئے میرے اسٹاف افسر کابھی میری ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ مس جزیلہ اسلم نے میرا پیاروالا اور بیچ والا دونوں پہلو انہوں نے دیکھے ہیں، میں نے کاز لسٹ بنانے میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ چیف جسٹس نے اپنی ریڈر حنا امتیاز کی شاندار الفاظ میں تعریف کی اور کہا ایک دن میرا ریڈر نہیں آیا تھا توکسی انے حناامتیا ز کوبھیج دیا میں ان کے کام سے بہت متاثر ہوااورانہیں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ حناامتیازجیسی لڑکیوں سے مردوں کوخطرہ ہونا چاہیئے کہ خواتین ہم سے آگے نکل جائیں گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر میں انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس کے خطاب کے اختتام کے ساتھ ہی فل کورٹ ریفرنس ختم ہو گیا ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسی اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں، اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غصہ دلائیں گے تو پھر آپ کواللہ تعالیٰ کے علاوہ ان کے غصة سے کوئی نہیں بچاسکتا، میں یہ کئی مرتبہ برداشت کرچکا ہوں، میں بینچ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بیٹھ کر بہت کچھ سیکھا۔ نامزد چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کئے ۔ ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔
ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔ ایسے دور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا،میری پہلی ترجیح دوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ ہوگی،فوری طورپردوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ پر توجہ دیناہوگی ۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے عوام کے لیے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے گی،اختیارات کی تقسیم کا اصول غالب رہے گا، جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے، چاہے چترال میں بیٹھا کوئی جج ہو یا میرے ساتھ سپریم کورٹ میں بیٹھا جج، بار کی شکایات کو بھی فوری طور پر حل کیا جائے گا۔نامزدچیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وہ صدر سپریم کورٹ بار کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کوحل کرنے کے لئے تیار ہیں اوراس حوالہ سے بارکے صدر سوموار دن ساڑھے 11بجے ملاقات کے لئے آجائیں۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ فوری طور پر بلوچستان کے ضلع جیوانی، خیبر پختونخوا میں ٹانک، سندھ میں گھوٹکی اور پنجاب میں صادق آباد جیسے دور دراز اضلاع پر فوری توجہ دی جائے گی کیونکہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹ اور حکومت کی فوری توجہ حاصل کرتے ہیں لیکن ان دور دراز اضلاع کو اہماری توجہ کی ضرورت ہے اور یہاں بہترین ججز کو وہاں جانا چاہیے کیونکہ انہیں کسی اور جگہ سے زیادہ ان کی ضرورت ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ میں یادگار کے افتتاح کی تقریب میں پہنچ گئے۔ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت دیگر ججز نے بھی شرکت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے تقریب میں کہا کہ سپریم کورٹ میں یہ جگہ خالی تھی۔ لوگ دور دراز کے شہروں سے یہاں آکر سڑک پر تصاویر بنواتے ہیں۔یہ یادگار عوام کے لیے ہے۔ جو آرکیٹیکٹ میرا مکان بنا رہا ہے، اس نے رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے رضامندی ظاہر کی۔انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے عملے اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل اور جج کی اہمیت پر بھی گفتگو کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے اور کہاں جھوٹ ہے، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے۔