یہ فیشن بن گیا ہے کہ عدالت میں جھوٹا بیان دیا جائے تاکہ اعلیٰ افسران کو بچایا جائے،مجھے ایک دن اوربرداشت کرلیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یہ فیشن بن گیا ہے کہ عدالت میں جھوٹا بیان دیا جائے تاکہ اعلیٰ افسران کو بچایا جائے۔ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو اس بات کاتعین کرے کہ کس معاشرے میں سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے ہم پہلے نمبر پرآجائیں گے۔اگر ہم معزز ہیں توپھر ارکان پارلیمنٹ کو بھی معزز لکھیں ، یہ بدلے گانہیں، ہزارسال یہی چلتا رہے گا۔ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کیا ہے، یہ کیا چیز ہے، کیا یہ نام قانون میں لکھا ہے، بلین سونامی توہم نہیں پوچھ رہے، آپ ہرچیز کوسیاسی بنادیتے ہواس میں سیاست لانے کی کیا ضرورت ہے۔ بجٹ کے حوالہ سے پورے اعدادوشمار لکھنے سے تھک جاتے ہیں،جاہلوں سے واسطہ پڑاہوا ہے بس۔سیکر ٹری نہیں آسکتا وہ بڑے افسر ہیں، میٹنگ میں مصروف ہیں، لوگوں کی خدمت کریں، سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہے ایس ڈی اوکوبھیج دیا، سروس کامعاملہ ہوتا توسارے افسر پہنچ جائیں گے ، یہ پورے کامسئلہ ہے کوئی نہیں آیا۔رپورٹ کے اوپر نام کیوں نہیں لکھا، چھپانا چاہتے ہیں کہ نام لکھا تو پھنس جائیں گے، دنیا میں بغیر نام کے کسی دستاویز پر دستخط ہوتے ہیں، بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے اس کابھی نام ہوتا ہے۔ چیف کنزرویٹو آفیسرجنگلات مصروف ہیں ان کے بیٹے کی شادی ہے، حکومت کے لئے بڑی لڑائی ہوتی ہے پھر تھوڑا کا م کرکے دکھائو، بیگم سے کس سے میٹنگ کررہا ہے۔ ضیاء الحق نے بھی زبان بنائی تھی زنابالجبر، عربی اس پر ہنسیں گے۔ 26ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات کی اہمیت کوتسلیم کیا گیاہے جس کے بعد پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے ماحولیات کوآئین میں شامل کیا ہے، ماحولیات کوآئین میں شامل کرنا قابل تعریف ہے اس سے قدرتی ماحول ، جانوروں اور درختوں کے تحفظ میں مدد ملے گی۔مجھے ایک دن اوربرداشت کرلیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کو کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں شیشم کے 218درختوں کے کٹائی کے معاملہ پر مہربادشاہ کی جانب سے چیف سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے حکومت خیبر پختونخوا کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے کیس میں پورے خیبرپختونخوامیں درختوں کی کٹائی ، نئے لگائے گئے درختوں کی تعداد ، محکمہ جنگلات کے ملازمین کی تعداد، بجٹ اوردیگر معاملات کے حوالہ سے تفصیلات طلب کی تھیں۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس رپورٹ کے ہمراہ پیش ہوئے جبکہ2022میں بھرتی ہونے والے گریڈ17کے افسر ایس ڈی اومردان ساجد اعوان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے رپورٹ کی کاپی چیف جسٹس کوفراہم کی۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ ہم آپ کے بروشر کی تعریف کرتے ہیں، بروشر بناتے ہیں چیزوں کاخیال نہیں رکھتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بجٹ کے حوالہ سے پورے اعدادوشمار لکھنے سے تھک جاتے ہیں،جاہلوں سے واطہ پڑاہوا ہے بس۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رپورٹ بنانے والا کوئی بہت پڑھا لکھا ہوگااس کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہوگی، اس پیسے کاکرتے کیا ہیں، گاڑیاں چلاتے کیا کرتے ہیں، جنگلات کی کٹائی ہورہی ہے۔ شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے پی میں کل ملازمین کی تعداد 7422ہے، گزشتہ پانچ سال کے دوران 60لاکھ 66ہزار185درخت کاٹے گئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بریک اپ کیوں نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھاکہ سیکرٹری نہیں آسکتا وہ بڑے افسر ہیں، میٹنگ میں مصروف ہیں، لوگوں کی خدمت کریں، سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہے ایس ڈی اوکوبھیج دیا، سروس کامعاملہ ہوتا توسارے افسر پہنچ جائیں گے ، یہ پورے کامسئلہ ہے کوئی نہیں آیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ کاغذی کاروائی ہے، بتائیں کتنا خرچہ ہوا ہے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ ایک ارب 36کروڑروپے خرچ ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ان لوگوں کوخود ہی رپورٹ سمجھ نہیں آرہی۔ شاہ فیصل الیاس کاکہناتھا کہ 2019سے بلین ٹری سونامی منصوبہ کی وجہ سے صوبہ میں جنگلات کارقبہ 19فیصد سے بڑھ کر 26فیصد ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ جہالت کی انتہا ہے ہم نے خیبرپختونخوا حکومت سے ریکارڈ مانگا تھا یہ مردان ضلع کے حوالہ سے دستاویز ہے، کیا صوبہ کومردان ضلع تک محدود کردیا ہے، کیا ایس ڈی اوپڑھا لکھا آدمی ہے، رپورٹ کے اوپر نام کیوں نہیں لکھا، چھپانا چاہتے ہیں کہ نام لکھا تو پھنس جائیں گے، دنیا میں بغیر نام کے کسی دستاویز پر دستخط ہوتے ہیں، بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے اس کابھی نام ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر اوپر ہمارانام لکھا ہوتا ہے، یہ ہوشیار لوگ سمجھتے ہیں، کہاں لکھا ہے ہم نے مردان کی رپورٹ مانگی تھی، ہم نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا سے پورے صوبے کی رپورٹ مانگی تھی۔

شاہ فیصل الیاس کاکہناتھا کہ رپورٹ میں پورے صوبے کے اعدادوشمار دیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا چیف کنزرویٹو آفیسرجنگلات مصروف ہیں ان کے بیٹے کی شادی ہے، حکومت کے لئے بڑی لڑائی ہوتی ہے پھر تھوڑا کا م کرکے دکھائو، بیگم سے کس سے میٹنگ کررہا ہے، ایس ڈی اوسے پوچھیں کہ چیف کنزرویٹو آفسیر فارسٹس کس سے میٹنگ کررہا ہے۔ اس پر ایس ڈی او نے بتایا کہ نہیں نہیں پتا کہ سے میٹنگ کررہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو اس بات کاتعین کرے کہ کس معاشرے میں سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے ہم پہلے نمبر پرآجائیں گے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چیف کنزرویٹو آفیسرجنگلات پشاور میں بیٹھتا ہے، کیا ایس ڈی اوکے پاس ٹیلی سکوپ ہے کہ مردان سے دیکھ لیا کہ چیف کنزرویٹو آفیسر کیا کررہا ہے۔چیف جسٹس کاایس ڈی اوساجد اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولنے پرآپ کو نوکری سے فارغ کردیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی سچ نہیں بولے گا۔ چیف جسٹس کاایس ڈی اوسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی جھوٹ بولتا ہے اس کی کوئی سزاہے،آپ جھوٹ بولنے میں اتنے ماہر ہوبتادو سزاکیا ہوتی ہے۔ اس پر ایس ڈی اوکاکہنا تھاسوری سر!۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اوپروالا تودیکھ رہا ہے ،گناہ کررہے ہو، سوری اورسر دو الفاظ ہیں، غلامی کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی، کنزرویٹو آفیسر کے اوپر کون ساافسر ہوتا ہے۔ اس پر شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھاکہ سیکرٹری ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا سیکرٹری بھی میٹنگ میں ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ہم نے سادہ ساسوال پوچھا تھا کہ سالانہ بجٹ کتنا ہے، ملازمین کی تعداد کتنی ہے، گزشتہ 5سال کے دوران کتنے درخت قانونی اورغیر قانونی طور پرکاٹے گئے، کتنے درخت لگائے گئے، دوبارہ درخت لگانے پر کتنے پیسے خرچ ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کیا ہے، یہ کیا چیز ہے، کیا یہ نام قانون میں لکھا ہے، بلین سونامی توہم نہیں پوچھ رہے، آپ ہرچیز کوسیاسی بنادیتے ہواس میں سیاست لانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاہ فیصل الیا س کاکہنا تھاکہ بلین ٹری سونامی منصوبہ کے تحت 2ارب 10کروڑ درخت لگائے گئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لئے ایپکس کورٹ اور معزز عدالت لکھا جاتا ہے جس کاآئین میں کوئی ذکر نہیں، آئین میں صرف سپریم کورٹ لکھا ہے، کون سامنصوبہ ہے اس سے ہمیں دلچسپی نہیں ، کتنے درخت لگائے یہ بتادو، پورے پاکستان کواِس صورت میں پتا ہوگا اگرقانون میں کوئی چیز لکھی ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی شخص معزز ہوسکتا ہے مگرادارہ معزز نہیں ہوسکتا، انگریزی زبان انگریزون نے لکھی ہے ان کے مطابق ہی ہمیں بولنی ہو گی اُردوہماری زبان ہے انگریز اسے ہم سے سیکھیں گے، ضیاء الحق نے بھی زبان بنائی تھی زنابالجبر، عربی اس پر ہنسیںگے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ہم معزز ہیں توپھر ارکان پارلیمنٹ کو بھی معزز لکھیں ، یہ بدلے گانہیں، ہزارسال یہی چلتا رہے گا۔

چیف جسٹس کاشاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے ایک دن اوربرداشت کرلیں۔ اس پر شاہ فیصل الیاس کاکہناتھاکہ ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے ہاں مارخورہوتے ہیں، ہمارے توبلوچستان میں ہوتے ہیں۔ اس پر شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ ہمارے صوبے میں ضلع چترال میں مارخور ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 218شیشم کے درخت غیر قانونی طور پر ضلع مردان میں کاٹے گئے تھے، اس پر رینج فاریسٹ آفیسر کے خلاف ایکشن لیا گیا تھا، ہم نے کیس نمٹا دیا تھا تاہم اس دوران بڑا صوبہ یں درختوں کی کٹائی کے حوالہ سے بڑاسوال سامنے آیا اورخیبرپختونخواحکومت کونوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس دوران چیف جسٹس کاشاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سارا بوجھ آپ پر ہی ہے اورسارے کام آپ ہی کرتے ہیں کوئی اور لا افسر کیوں نہیں آتا۔اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس نے جواب دیا کہ اب آگے باقی لا افسران بھی آیا کریں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کے اس جملے میں کہیں کوئی مطلب تو نہیں چھپا ہوا۔ چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھا کہ جمع کروائی گئی رپورٹ پر ڈویژنل فاریسٹ آفیسر مردان کے دستخط ہیں تاہم نام نہیں لکھا ہوا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کیوں ایک ضلع کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ نے رپورٹ جمع کروائی جب رپورٹ صوبہ سے مانگی گئی تھی۔

ایس ڈی اورپورٹ کے ہمراہ پیش ہوئے اورانہوں نے بتایا کہ چیف کنزرویٹو آفیسر اورسیکرٹری بڑے افسران ہیں اوروہ دونوں میٹنگ میں ہے، ہمارے استفسار پر بتایا گیا کہ پتا نہیں کس حوالہ سے میٹنگ ہے، سینئرز کے حوالہ سے انہیں کوئی آئیڈیا نہیں، سینئرز کے کام کی جگہ پشاور جبکہ ایس ڈی اومردان میں ڈیوٹی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ فیشن بن گیا ہے کہ عدالت میں جھوٹا بیان دیا جائے تاکہ اعلیٰ افسران کو بچایا جائے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ رپورٹ پر تاریخ نہیں اورنہ ہی ڈی ایف اوکانام ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جورپورٹ جمع کروائی جائے اس پر افسر کاعہدہ اور نام لکھا جائے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ انہوں نے خیبرپختونخواحکومت کو اس حوالہ سے بتایا ہے تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا جس پروہ عدالت سے معذرت خواہ ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ پورے ملک کااہم معاملہ ہے ملک کامستقل جنگلات کی معقول مقدار سے منسلک ہے۔ نہ صرف موجودہ جنگلات کاتحفظ کیا جائے بلکہ نئے درخت لگانے کی کوششیں بھی کی جائیں۔ بڑی مقدار میں رقم محکمہ جنگلات پرسالانہ خرچ ہورہی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے21اکتوبر کو منظورہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق شق کی شمولیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم میں ماحولیات کے تحفظ کی شق شامل کرنا قابل تعریف ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ26ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات کی اہمیت کوتسلیم کیا گیاہے جس کے بعد پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے ماحولیات کوآئین میں شامل کیا ہے، ماحولیات کوآئین میں شامل کرنا قابل تعریف ہے اس سے قدرتی ماحول ، جانوروں اور درختوں کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قرآن کریم میں بے شمار آیات آئی ہیں جن میں ماحول کے تحفظ کاذکر ہے جبکہ نبی ۖ کی بے شمار احادیث ہیں جن میں قدرتی ماحول، جانوروں اور درختوں کے تحفظ کاحکم دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے جنگلات کے تحفظ کے لئے مئوثر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور مزید اقدامات بھی اٹھائے جاتے رہیں گے۔ عدالت نے درخواست نمٹا دی۔جبکہ چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصلہ الیا س کی استدعا پر کیس کافیصلہ رپورٹ کرنے کی بھی ااجازت دے دی۔