5فروری2022 کو ، یومِ یکجہتی کشمیر کے موقعے پر، ہم سب نے ایک پر مسرت اور امید افزا منظر ملاحظہ کیا۔اس روز پاکستان کے صحرائی علاقے تھر (سندھ) کی معزز ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر، محترمہ کرشنا کماری ، نے پاکستان کے ایوانِ بالا کی صدارت کی۔
سینیٹر کرشنا کماری صاحبہ2018میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر سینیٹ آف پاکستان کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اِس تاریخ ساز موقعے پر کرشنا کماری نے کہا: میں اس شاندار اور پر فخر موقعے پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے یہ قابلِ فخر موقع فراہم کیا۔ سینیٹ کے ایک خاص سیشن کی صدارت کرنے کے موقعے پر بلاول بھٹو زرداری نے کرشنا کماری صاحبہ کے بارے میں کہا:She represented of a Pakistan unshakable patriotism,equality and pluralismکرشنا کماری صاحبہ کے زیر صدارت سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا اسپشل اسٹیٹس ختم کرکے ایک قابلِ مذمت اور کشمیر دشمن اقدام کیا ہے پاکستان کی ہندو کمیونٹی کی نمایندہ سینیٹر محترمہ کرشنا کماری کے زیر صدارت سینیٹ کے اس اجلاس کو خاصا Symbolicقرار دیا گیا ہے ۔
جس وقت اور تاریخ کو پاکستان اپنی ایک اقلیتی اورہندو سینیٹر ، کرشنا کماری صاحبہ، کو سینیٹ کے ایک سیشن کی صدارت کرنے کا زریں موقع فراہم کررہا تھا، عین اسی وقت بھارت کی ایک معروف ریاست میں مسلمان طالبات پر محض اس لیے کالج کے دروازے مقفل کیے جا رہے تھے کہ یہ مسلمان طالبات حجاب کے ساتھ کالج کی تعلیم حاصل کرنے پر مصر تھیں۔
یہ بدقسمتی ہے کہ بھارت میں بی جے پی کے اقتدار کے دوران دیدہ دانستہ ایسی مسلمان طالبات اور خواتین پر تعلیم اور تعلیمی اداروں کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں جو پردے اور حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ظلم ہے۔ بھارت میں ساری مسلمان طالبات حجاب اور پردے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں نہیں آتی ہیں لیکن جو مسلمان طالبات حجاب میں تعلیم کے حصول کے لیے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہونا چاہتی ہیں ان کے راستے مسدود اور محدود نہیں کیے جانے چاہیئں۔
یوں تو ایسے واقعات و سانحات بھارت بھر میں ہو رہے ہیں اور مسلمان طالبات کی دلشکنی اور حوصلہ شکنی کا موجب بن رہے ہیں لیکن تازہ ترین واقعہ ( بلکہ سانحہ) مشہور بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آیا ہے ۔ کرناٹک میں بھی بلکہ یہ دوسرا واقعہ ہے ۔
کرناٹک ریاست پر بی جے پی حکمران ہے۔ اس لیے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مذکورہ کالج (بھاندرا کر) کے ہندو پرنسپل (رام کرشن) کس قدر دباو میں ہوں گے۔مسلمان طالبات کے خلاف بروئے کار آنے والا یہ واقعہ ، جس نے بھارت بھر میں ہلچل پیدا کررکھی ہے، کرناٹک کے شہر کنڈاپور (ضلع اوپودائے) میں ظہور پذیر ہوا ہے ۔ اور مسلمان طالبات جنھیں حجاب اور اسکارف پہننے کے جرم میں کالج کے اندر آنے سے روکا گیا، ان کی تعداد 100ہے ۔
یہ ظلم عین اس وقت کیا جارہا ہے جب طالبات کے سالانہ اور فائنل امتحان سر پر ہیں۔ ہم ایک وڈیو منظر میں صاف دیکھ سکتے ہیں کہ کالج مذکور کے پرنسپل کالج کے مین گیٹ پر خود کھڑے ہیں اور احتجاج کناں مسلمان طالبات سے کہہ رہے ہیں: اگر آپ حجاب اتار دیں تو کالج میں آ کر کلاسز اٹینڈ کر سکتی ہیں، بصورتِ دیگر نہیں۔ شہر کے ہندو غنڈوں نے باحجاب مسلمان طالبات کو ڈرانے دھمکانے کے لیے کالج مذکور کے ہندو طلباو طالبات میں زعفرانی رنگ(ہندو مذہب کا نشان) کے بڑے بڑے رومال تقسیم کیے ہیں؛چنانچہ سیکڑوں کی تعداد میں ہندو طلبا و طالبات جئے شری رام کے فرقہ وارانہ نعرے لگاتے مسلمان طالبات کے مقابل آ گئے۔ اس حرکت نے کالج انتظامیہ اور حجاب کی حامل مسلمان طالبات میں مزید کشیدگی پیدا کر دی۔ یوں کالج کے باہر پولیس کے دستے بھی کھڑے کرنا پڑے ہیں ۔
آٹھ درجن سے زائدمسلمان طالبات بھی اپنے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہیں کہ ہم اسکارف اور حجاب کے ساتھ ہی اس کالج میں تعلیم حاصل کریں گی۔ اس موضوع پر بھارت بھر کا میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ کرناٹک کے مذکورہ شہر کے رکن اسمبلی( سری نواس شیٹی) بھی بی جے پی کے رکن ہیں اور صوبائی وزیر تعلیم (نگیش بی سی) بھی کٹر ہندو اور بے جے پی کے ممبر۔نگیش بی سی نے کشیدگی کم کرنے اور مسلمان طالبات و ہندو طلبا میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ملائم لہجے میں یہ کہا ہے: آپ سب ہمارے بچے ہیں ۔ آپ سب کو اپنا اپنا مذہب اپنے گھروں میں چھوڑ کر کالج آنا چاہیے۔
حجاب پہن اور زعفرانی رنگ کی چادریں اوڑھ کر قومی یکجہتی کو منقسم مت کیجیے۔ ان کی آواز مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔ سب کا دباو بحیثیت مجموعی مسلمان طالبات پر ہے کہ حجاب سے دستکش ہو کر کالج میں آئیں۔ اس صورتحال نے کرناٹک میں 80لاکھ کی مسلمان آبادی کو بھی پریشان کررکھا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی زیادتیاں روز افزوں ہیں۔ کرناٹک کی مذکورہ زیادتی ان پریشانیوں میں تازہ ترین ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ بھارتی مسلمان لیڈر شپ بھی بیک زبان ہو کر کرناٹک کی باحجاب مسلمان طالبات کے حق میں آواز بلند کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ بھارت میں مدرسہ دیوبندکی قیادت کی طرف سے کرناٹک کی اس بہادر با حجاب مسلمان طالبہ (مسکان) کو پانچ لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے جس نے ہراساں کرنے والے بی جے پی کے غنڈوں کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ہے ۔
سحر انگیز آواز تھم گئی : کوئل کی طرح کوکتی ایک مدھر اور پر کشش آواز تھم چکی ہے ۔ بھارت کی شہرئہ آفاق گلوکارہ محترمہ لتا منگیشکر فطری موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ کورونا اور نمونیہ مبینہ طور پر ان کی زندگی کے خاتمے کا بہانہ اور موجب بنے۔92سال کی عمر میں بھی ان کی موت ہم سب کو افسردہ کر گئی ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں اردو اور ہندی لکھی، بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں لتا منگیشکر کا نام احترام اور اکرام سے لیا جاتا رہا ہے اور شاید ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ وہ پاکستان کی مشہور مغنیہ ، ملکہ ترنم نور جہاں، کی طرح ایک نہایت پسندیدہ اور دلنواز آواز تھیں۔
نورجہاں اور لتا منگیشکر میں عزت و احترام کا گہرا رشتہ تھا۔ دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کا نام احترام سے لیا۔ جب کبھی دونوں مشہور گلوکاراوں کی بالواسطہ یا بلا واسطہ ملاقات ہوئی تو پاکستان اور بھارت میں یہ ملاقات ایک بڑی خبر بن گئی ۔ لتا منگیشکر نے ساری زندگی کسی اسیکنڈل اور تنازع کے بغیر شریفانہ طور پر گزاری ۔ ساری عمر شادی نہیں کی۔
انھوں نے مبینہ طور پر محبت بھی کی تو پاکستان کے ایک مشہور کلاسیکی گلوکار سے کی لیکن یہ محبت بوجوہ متاہلانہ زندگی کا روپ نہ دھار سکی۔ ہمارے کلاسیکی گلوکار اور لتا منگیشکر کے درمیان مگر پھر بھی احترام اور انس کا رشتہ استوار رہا۔ اب سازو آواز کی یہ دونوں اساطیری ہستیاں ہمارے درمیان سے اٹھ چکی ہیں لیکن سازو آواز کی شکل میں ان کا نام بدستور زندہ رہے گا۔ لتا منگیشکر کی سحر انگیز آواز روح میں اتر کر دلوں کے تار چھیڑتی رہے گی۔ یہ آواز تا ابد خاموش نہیں ہوگی ۔ لتا منگیشکر کی موت نے بھارت ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو اداس اور دلگیر کر دیا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس