اسلام آباد(صباح نیوز) )پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء کی جانب سے تعصب کاالزام لگاتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ کے سامنے دلائل دینے سے انکار کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے حوالہ سے فیصلہ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے قرادیا ہے کہ درخواست گزار فیصلے میں کسی لاقانونیت یا بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں کرسکے اس لئے نظرثانی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کی جاتی ہے۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میں نے آئین میں ہونے والی ترمیم نہ دیکھی ہے اور نہ سنی ہے۔ انٹراپارٹی انتخابات توجمہوریت کی بنیاد ہے۔ الیکشن سے گھبراتے کیوں ہیں، اکبر ایس بابر نے درخواست دی تھی، پارٹی میں الیکشن کروالیں۔ الیکشن کروالیں مخالفین ہارجائیں گے۔ آج بینک اکائونٹ دکھا دیں کسی نے انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے 50ہزار روپے فیس جمع کروائی ہو۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرقانون کے مطابق دوسری جماعتیں بھی انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرواتیں توالیکشن کمیشن آف پاکستان کوان کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہیئے۔
پی ٹی آئی نے اپنے آئین میں دیئے سارے انتخابی عمل کی خلاف ورزی کی۔ اگرآئندہ موقع ملے تو پھر اپنے پارٹی آئین میں ترمیم کرلیں اور جیسے دوسری جماعتوں میں ہوتا ہے وہی طریقہ کاراپنا لیں۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ عمران خان انٹرا پارٹی انتخابات کروانا نہیں چاہتے تھے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں کہ بلے کانشان چھینا گیا۔ انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانا پی ٹی آئی کی سستی لگتی ہے، انٹراپارٹی انتخابات کرواناایک ہفتے کاکام ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ ہم کیوں معتصب ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی خصوصی بینچ نے سوموارکے روز دن 11بجکر 35منٹ پرپی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت شروع کی اور12بجکر 5منٹ پر درخواست خارج کردی۔دوران سماعت پی ٹی آئی وکلاء سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ، سینیٹر سید علی ظفر ، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیری اور اجمل غفار طور کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ مدعا علیہ اکبر شیر بابربھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس کا حامد خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا جی۔ حامد خان کاکہناتھا کہ میں نے متفرق درخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جی ہم انتظار کررہے ہیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے کمیٹی کو بھجوایا جائے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ نظرثانی ہے، ہم قانون پر چلتے ہیں، یہ نظرثانی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے کیس کی سماعت کے دوران یہ درخواست دائر نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی میں کیس کے فیصلہ پر نظرثانی ہوتی ہے، خان صاحب !کیس چلالیجیئے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کیس کا فیصلہ پڑھ لیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کاکیس مختلف ہے، اس کیس کی اپنی نظرثانی درخواست زیر التوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس کیس کاسنی اتحاد کونسل سے کیا تعلق ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خان صاحب میں اس فیصلہ پر بات نہیں کروں گا جس کی اپنی نظرثانی درخواست زیرالتوا ہے، آپ اپنی نظرثانی درخواست پر کاراائی چلائیں۔ چیف جسٹس کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے 6فروری 2024کو سپریم کورٹ کے 13جنوری 2024کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی، 13جنوری سے 6فروری تک کیا کررہے تھے، اتنا اہم معاملہ تھا تو فیصلے کے اگلے روز ہی نظرثانی درخواست دائر کردیتے، 8فروری کوانتخابات ہوگئے اس سے لگتا ہے آپ نے فیصلہ قبول کرلیا۔
اس دوران چیف جسٹس نے حامد خان کے ساتھ کھڑے وکیل اجمل غفار طور پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سر کیوں ہلا رہے ہیں یہ کون ساطریقہ ہے، جاکر سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کوفیصلے کے اگلے روز ہی نظرثانی درخواست دائر کرنا چاہیئے تھی میں ان چیزوں کوجانتا ہوں جو ہمارے سامنے موجود ہوں۔ چیف جسٹس کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس چلانا ہے کہ نہیں چلانا، آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جوکہنا ہے سامنے کہیں، ہماری اتنی بے عزتی نہ کریں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ میں اس بینچ کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا، یہ بینچ درخواست گزار کے ساتھ متعصب ہے۔ حامد خان کاکہناتھا کہ میں دلائل نہیں دوں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جب عمران نیازی صاحب وزیر اعظم تھے اس وقت الیکشن کمیشن انہیں کہہ رہا تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات کروالیں، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹ گئے توبھی الیکشن کمیشن کہتا رہا انٹراپارٹی انتخابات کروالیں،عمران خان انٹرا پارٹی انتخابات کروانا نہیں چاہتے تھے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں کہ بلے کانشان چھینا گیا، 25دن تاخیر سے نظرثانی درخواست دائرکی ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کیس میں پیش ہونے والے دیگر بیرسٹر گوہر علی خان، سید علی ظفر، اجمل غفار طور اور نیاز اللہ خان نیازی میں سے دلائل دینا چاہتا ہے تودے سکتا ہے۔ چیف جسٹس کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ دلائل نہیں دے رہے بلکہ گپ شپ کررہے ہیں، آپ کو سننا ہمیشہ خوشی کی بات ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھاکہ انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانا پی ٹی آئی کی سستی لگتی ہے، انٹراپارٹی انتخابات کرواناایک ہفتے کاکام ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاحامد خان ایڈوکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آگر آپ کی بات مان لی جائے توپھر آئین کے آرٹیکل 17کے بعد الیکشن ایکٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کی شق 215میں بتایا گیا ہے کہ اگر انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرواتے توپھر انتخابی نشان نہیں ملے گا، الیکشنز ایکٹ 2017کی شق 215کو کسی نے چیلنج نہیںکیا۔
چیف جسٹس کہنا تھا کہ آئینی درخواست دائر کرکے قانون کوہائی کورٹ یاسپریم کورٹ میں چیلنج کریں، چیلنج کرنا ہے آج کردیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جب تک الیکشنز ایکٹ کی شق 215-4موجود ہے یہ رائج الوقت قانون ہے،کیا ہم سے چاہتے ہیں کہ بغیر چیلنج ہوئے ہم اسے کالعدم قراردے دیں۔ حامد خان کاکہناتھا کہ یہ قانون چیلنج ہوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کہاں چیلنج ہوا ہے دکھادیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ ایشو ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قتل کیس میں فیملی لاء کے حوالہ سے دلائل دینا شروع کردیں کہ پہلے اس کافیصلہ کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرقانون کے مطابق دوسری جماعتیں بھی انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرواتیں توالیکشن کمیشن آف پاکستان کوان کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہیئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اگرچیلنج ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات توجمہوریت کی بنیاد ہے۔
حامد خان کاکہناتھا کہ ہم نے الیکشن کروایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے آئین میں انٹراپارٹی انتخابات کے حوالہ سے بڑا جامع طریقہ دیا ہے جسے پڑھ کرہم بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ شاید الیکشن کمیشن آف پاکستان آپ کاانتخاب کروائے گا، چاروں صوبوں سے 99عہدیداروں نے منتخب ہونا تھا، اگر قانون کے مطابق انتخابات کرواتے تویہ بہت شفاف طریقہ کار ہے تاہم اس سارے عمل کی خلاف ورزی ہوگئی،کہا گیا 50ہزار فیس تھی اور 90سے زائد امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ، یہ بھی کہا گیا کہ اکبر ایس بابر نے فیس جمع کروائی اور پھر کہا گیا کہ شام 4بجے تک وقت تھا یہ تاخیر سے آئے اس لئے انہیں فارم نہیں دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرآئندہ موقع ملے تو پھر اپنے پارٹی آئین میں ترمیم کرلیں اور جیسے دوسری جماعتوں میں ہوتا ہے وہی طریقہ کاراپنا لیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن سے گھبراتے کیوں ہیں، اکبر ایس بابر نے درخواست دی تھی، پارٹی میں الیکشن کروالیں۔ اس دوران سید علی ظفر نے روسٹرم پر آکر چیف جسٹس کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس کی کاروائی چلاہی نہیں سکتے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ آئینی ترمیم ہو گئی ہے، آئینی بینچ بن گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ہمیں نہیں پتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ابھی نہیں بنا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کروالیں مخالفین ہارجائیں گے۔
حامد خان کاکہنا تھا کہ بہت کچھ جمہوریت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج بینک اکائونٹ دکھا دیں کسی نے انٹراپارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے50ہزار روپے فیس جمع کروائی ہو۔چیف جسٹس کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوکہنا چاہتے ہیں کہیں ہم سننے کے لئے تیار ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے نہ ترمیم دیکھی ہے اور نہ سنی ہے۔ چیف جسٹس کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے دلائل مکمل کرلئے۔ اس پرحامد خان کاکہنا تھا کہ میں دلائل نہیں دیئے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ حامد خان نے کہا وہ دلائل نہیں دے گے، ہم نے کہا کہ سید علی ظفر، گوہرعلی خان، اجمل غفارطو اورنیازاللہ خان نیازی میں سے کوئی دلائل دینا چاہے تودلائل دے سکتا ہے تاہم کمرہ عدالت میں موجود سید علی ظفر نے کہا کہ وہ دلائل نہیں دینا چاہتے۔ اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ فیصلے میں ان کی جانب سے یہ لکھا جائے کہ وہ اس حوالہ سے مکمل طور پرکائل ہیں کہ بینچ کے ایک رکن درخواست گزار کے ساتھ شدید بغض رکھتے ہیں۔ اس پرجسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پہلے کیس میں یہ بات کیوں نہیں کہی۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر یہ بات کیوں نہیں کی، گزشتہ سماعت پر توالتواکی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حامد خان خاندانی مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تھوڑاسا اس ادارے کوشفاف رہنے دیں، ہمیں نہ بتائیں ہم کیا کریں، تقریر کرنی ہے باہر جاکرکردیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ ہم کیوں معتصب ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ تعصب کے حوالہ سے درخواست بھی نہیں دی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار فیصلے میں کسی لاقانونیت یا بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں کرسکے اس لئے نظرثانی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ لاہور میں خاندانی مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے تھے اوران کی جانب سے التواکی درخواست دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت 21اکتوبرتک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا تھا کہ ہم التواکی درخواست منظور نہیں کررہے تاہم انصاف کے تقاضوں کوپوراکرنے کے لئے ایک موقع دے رہے ہیں اور مزید التواکی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔