اسرائیلی فوجی سے چھینی گئی پستول ملنے سے السنوار کی شناخت ہوئی

غزہ(صباح نیوز) اسرائیلی فوج  نے دعوی کیا  ہے کہ جائے مقام سے اس پستول کے ملنے سے لاش کی شناخت میں آسانی ہوئی جسے یحیی السنوار اکثر جلسوں میں فخریہ لہراتے ہوئے بتاتے تھے کہ یہ جھڑپ میں اسرائیلی فوج سے چھنی گئی پستول ہے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق یحیی السنوار کی لاش کے قریب سے وہ پستول مل گئی جو حماس کے سربراہ ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔یہ پستول ایک اسرائیلی فوجی افسر کا تھا جو 2018 میں حماس کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا اور تین سال تک ان کی تدفین کی جگہ کا پتا نہیں چل سکا تھا۔اس پستول کو یحیی السنوار متعدد بار جلسوں میں دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ اسلحہ انھوں نے ایک جھڑپ میں اسرائیلی فوج کے افسر کو ہلاک کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔

یحیی السنوار کو اسرائیلی فوج گزشتہ ایک برس سے تلاش کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں فون اور دوسرے مواصلاتی آلات کا استعمال بند کر دیا تھا۔اسرائیلی انٹیلی جنس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود یحیی السنوار تک پہنچنے میں ناکام تھی۔ علاوہ ازیں اسرائیلی فوج کے چونکا دینے والے بیان میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جس کارروائی میں حماس کے سربراہ کو  شہیدکیا گیا اس کے اگلے 24 گھنٹوں بعد تک بھی ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ یحیی السنوار ہوسکتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اسرائیلی فوج کی 828 ویں بسلاماچ بریگیڈ کا ایک یونٹ بدھ کو رفح کے علاقے تل السلطان میں معمول کے گشت پر تھا۔جس کے دوران اسرائیلی فوجیوں کو 3 مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملی جو فوج کو دیکھ کر ایک کے بعد دوسری عمارت میں چھلانگ لگا رہے تھے اور مقابلہ کرتے جا رہے تھے۔اسرائیلی فوج نے ایک عمارت میں تینوں کو محصور کردیا جن میں سے 2 مارے گئے۔

عمارت میں بھیجے گئے ڈرون میں ایک زخمی عسکریت پسند کو دیکھا گیا۔اسرائیلی فوج نے اس آخری جنگجو کو بھی نشانہ بنایا اور اسے معمول کی ایک کارروائی اور جنگجووں کو عام مزاحمت کار سمجھ لاشیں لیے بغیر واپس چلے گئے۔بعد ازاں اسرائیلی فوجی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اگلے روز واپس آئے اور لاشوں کو دیکھا تو ایک لاش کی یحیی السنوار سے مشابہت نظر آئی۔جس پر تینوں لاشوں کو اسرائیل لے جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر فوجیوں نے سوچا کہ ممکنہ طور پر یہ حماس کا کوئی ٹریپ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے باڈی لے جانے کے بجائے ایک انگلی کاٹ کر بھیج دی گئی۔مشتبہ لاش کی انگلی کے فرانزک ٹیسٹ اور ڈی این اے سے جمعرات کی رات تصدیق ہوگئی کہ جس شخص کی تلاش میں سال بھر سے در در کی خاک چھانی جا رہی ہے یہ مشتبہ لاش اسی یحیی السنوار کی ہے۔اس تصدیق کے بعد مزید نفری طلب کی گئی اور پورے علاقے کا محاصرہ کرکے ایک محفوظ راہداری بنائی گئی جس کے ذریعے لاش کو اسرائیل منتقل کیا گیا۔اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے بتایا کہ فوجیوں کو معلوم نہیں تھا کہ جن جنگجووں کا وہ تعاقب کر رہے ہیں ان میں یحیی السنوار بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ تین میں سے دو کو مارنے کے بعد تیسرا چھلانگ مار کر دوسری عمارت میں داخل ہوگیا جسے ڈرون کے ذریعے تلاش کیا گیا اور وہیں ختم کردیا گیا تھا جس کی بعد میں یحیی السنوار کے طور پر شناخت ہوئی۔کارروائی کے دوران یحیی السنوار کے اپنے صرف 2 محافظوں کے ساتھ ملنے پر اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہاں یرغمالی نہیں تھے جنھیں یحیی انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔

اسرائیلی ترجمان نے مزید بتایا کہ یحیی السنوار کے مختصر سے دستے کے رہتے تھے تاکہ یا تو کسی کا دھیان نہیں جائے یا پھر ان کے متعدد محافظ مارے گئے اور وہ زندہ بچ جانے والے صرف دو محافظوں کے ساتھ تھے۔یحیی السنوار کی شہادت کے اسرائیلی فوج کے اعلان کے چند منٹوں کے اندر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں ایک لاش دکھائی گئی جس کی یحیی السنوار سے کافی مماثلت تھی۔لاش کے سر پر گہرے اور تباہ کن زخم آئے تھے۔ تاہم اسرائیلی حکام نے خبردار کیا تھا کہ فی الوقت تین میں سے بھی ایک لاش کی شناخت کی تصدیق نہیں ہوسکی،اس کے کچھ ہی دیر بعد، اسرائیلی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ یحیی السنوار کے قتل ہونے امکانات قوی ہوگئے ہیں تاہم تصدیق کے لیے پہلے تمام ضروری ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔ان ٹیسٹوں میں زیادہ وقت نہیں لگا اور جمعرات کی رات اسرائیل نے اعلان کیا کہ لاش کے دانتوں کے ڈی این اے سے تصدیق ہوگئی کہ لاش یحیی السنوار کی ہے۔اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اگرچہ السنوار کو ٹارگٹڈ آپریشن میں مارا نہیں کیا گیا لیکن کئی ہفتوں سے رفح کے تباہ حال علاقوں میں ان کی تلاش جاری تھی کیوں کہ انٹیلی جنس نے یہاں ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا۔بقول اسرائیلی فوج مختصرا یہ کہ ہم نے یحیی السنوار کے گرد اتنا گھیرا تنگ کردیا کہ وہ رفح تک محدود ہونے پر مجبور ہوگئے تھے اور بالآخر ہم نے انھیں جا لیا لیکن یہ سب اتنا غیرمتوقع اور آسان ہوگا۔ اس کا اندازہ نہ تھا ،

دوسری طرف اسرائیلی فوج نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ تباہ حال عمارت میں دکھائی دیئے جانے والا زخمی شخص یحیی السنوار ہیں جنھیں چند لمحوں بعد حتمی حملے میں شہید کردیا گیا تھا۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اسرائیل فوج نے یحیی سنوار پر حملے کے وقت کی ویڈیو جاری کی ہے۔ جسے ٹی وی پر نشر کرنے کے لیے ایڈیٹ کیا گیا ہے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک تباہ عمارت میں ڈرون داخل ہوتا ہے اور ایک کمرے میں رکھے صوفے پر ایک زخمی شخص چہرے پر فلسطینی اسکارر باندھے بیٹھا ہے جو ڈرون کو دیکھ رہا ہے۔جیسے ہی ڈرون زخمی شخص کے نزدیک جاتا ہے تاکہ صاف تصاویر لے سکے۔ زخمی شخص پوری طاقت سے ایک چھڑی ڈرون کی جانب پھینکتا ہے۔بعد ازاں اسی عمارت سے اسرائیلی فوجیوں کو اسٹریچر پر سیاہ شاپر میں لپٹی تین لاشوں کو تباہ حال عمارت سے باہر نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اسرائیلی فوج نے دعوی کیا کہ ویڈیو میں اسکارف سے چہرہ چھپائے زخمی شخص حماس کے سربراہ یحیی السنوار ہیں جنھیں اگلے ہی لمحے ایک حتمی حملے میں قتل کردیا گیا۔

اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ یحیی السنوار کی لاش کی تصدیق ان کے خون، دانتوں اور ہڈیوں کے ٹیسٹ اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی۔دوسری طرف یحیی سنوار کے آخری لمحات کی ویڈیو جاری کیے جانے پر اسرائیل کی سیاسی و عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تبصرے جاری ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر تبصروں میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ یحیی سنوار سرنگوں میں چھپتے پھر رہے ہیں اور سامنے آکر لڑنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کر پارہے۔بہت سے لوگوں نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے یہ ویڈیو اس خیال سے جاری کی ہے کہ فلسطینیوں کی بالخصوص اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی بالعموم حوصلہ شکنی ہوگی، ان میں مایوسی پھیلے گی۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے دعووں کے برعکس یحیی سنوار نے سرنگوں میں چھپنے کے بجائے عوام میں رہنے کو ترجیح دی اور ایک عام سی عمارت میں گھیر لیے گئے۔یحیی سنوار کی آخری لمحات کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انتہائی زخمی ہونے پر بھی انہوں نے ہاتھ بلند کرکے نعرہ لگایا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ جان بچانے کے لیے چھپنے پر انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ سامنے رہتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کیا جائے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جو ویڈیو جاری کی ہے اس نے یحیی سنوار کو مزید دوام بخش دیا ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری دم تک اپنے کاز کے لیے لڑتے رہے اور میدان میں رہے۔یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ حماس کے سربراہوں کو شہید کیا جاتا رہا ہے مگر نئے سربراہ کے تعین اور تقرر میں دیر نہیں کی جاتی۔اسرائیلی فوج کو انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی اقدامات کے باوجود حماس کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔حماس سے جڑنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی ہے اور اس کی قیادت سنبھال کر جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی کمی نہیں رہی۔اسرائیلی یرغمالی اب بھی حماس کی قید میں ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ڈھانچا فیصلہ کن حد تک توڑنے میں اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے تاحال کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ یہی معاملہ حزب اللہ کا بھی ہے۔ملیشیا چیف حسن نصراللہ اور دیگر متعدد سینیر کمانڈرز کو ختم کرنے کے باجود حزب اللہ کا بنیادی ڈھانچا برقرار ہے اور اسرائیلی فوج کو زمینی کارروائیوں میں انتہائی نوعیت کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔