سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق کوٹہ، پالیسی و پیکیجز غیر قانونی قرار دے دیئے


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق کوٹہ، پالیسی و پیکیجز غیر قانونی قرار دے دیئے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے بچوں کوکوٹے میں ملازمتیں دینا امتیازی اقدام اور آئین کے خلاف ہے۔ فیصلے کا اطلاق شہداء اوردہشت گردی کا شکار سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کے قانونی ورثاء کے حوالہ سے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی پالیسیوں، رولز اورمعاوضے کے پیکیجزپر نہیں ہوگا۔ سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹہ سے متعلق کیس کا11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے تحریر کیا ہے ۔جسٹس نعیم اخترافغان نے جمعہ کے روز تمام کیسز کی سماعت کے آخر پر فیصلہ کھلی عدالت میں پڑھ کرسنایا جوبعد ازاں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی نے 26ستمبر2024کو  جنرل پوسٹ آفس، اسلام آباد اوردیگر کی جانب سے محمد جلال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔ درخواست میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے پیش ہوکردلائل دیئے تھے جبکہ عدالتی نوٹس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر محمد ممتاز علی، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سیف اللہ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایاز خان سواتی نے پیش ہوکردلائل دیئے تھے۔ جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا۔ سپریم کورٹ نے جنرل پوسٹ آفس کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا 13اپریل 2021کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

علاوہ ازیں عدالت عظمی نے کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکیج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس میمورینڈم بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اسی طرح سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے سیکشن 11 اے کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے خیبرپختوا سرول سرونٹس رولز 1989 کا سیکشن 10 ذیلی شق 4 بھی کالعدم قرار دیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان سرول سرونٹس رول 2009 کی شق 12 بھی کالعدم قرار دے دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر بیوہ یا بچے کا سرکاری ملازمت میں کوٹہ آئین کے آرٹیکل 3 آرٹیکل 4، آرٹیکل 5(2) ، آرٹیکل 25(1)اور آرٹیکل 27 سے متصادم قرار دیا ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا کہ وفاق سمیت تمام صوبائی حکومتیں اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمتوں دینے کی پالیسی ختم کریں۔

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس فیصلے کااطلاق پہلے سے بھرتی ہونے مرحوم یا ریٹائرڈ ملازمین کی بیوہ، رنڈوے، اہلیہ، خاوند یا بچوںپر نہیں ہوگا۔ عدالتی فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے قانونی ورثا پر نہیں ہوگا۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ فیصلے کا اطلاق شہدا کے ورثا کو ملنے والے پیکیجز اور پالیسیز پر بھی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو بھی کوٹے سے متعلق رولز نرم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اچھا طرز حکمرانی غیر مساوی سلوک اپنا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کوٹے کے تحت ملازمتوں کا حصول میرٹ کے برخلاف ہونے کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک بھی ہے۔واضح رہے کہ محمد جلال نامی شہری نے اپنے والد کے میڈیکل گرائونڈز پر ریٹائرمنٹ کی بنیاد پر درجہ چہارم کی ملازمت کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جس پر پشاور ہائیکورٹ نے محمد جلال کو کنٹریکٹ پر ملازمت کی ہدایت دی تھی۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جنرل پوسٹ آفس نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔