آج کل سچ جھوٹ کافرق ختم ہو گیا ہے ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کاہے کہ آج کل سچ جھوٹ کافرق ختم ہو گیا ہے ۔کیا یہ اسلامی طریقہ ہے کہ جب جج بولے گاتووکیل درمیان میں بولے گا،اس حوالہ سے کوئی حدیث لادیں۔ ہمارے زمانہ میں ایک ہی طریقہ ہوتاتھا فائل پڑھ کر دلائل دیتے تھے،آج کل قابلیت بڑھ گئی ہے، وکیل بغیر فائل پڑھے دلائل دیتے ہیں۔ وکیل کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں لاپرواہی نہیں برتنی چاہیئے، وکیل کاسرٹیفیکیٹ بامعنی دستاویز ہے جس کو بے معنی نہیں بنانا چاہیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 5کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے نذیر احمد کی جانب سے میاں دوست محمد خان اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پردائر نظرثانی درخواست پرسماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہان کی جانب سے محمد منیر پراچہ بطور وکیل پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چلئے شاہ صاحب! بسم اللہ کیجیئے، اب آپ 10باتیں بتائیں گے جو کیس سے متعلقہ نہیں ہیں، عدالت کاوقت ضائع نہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارا29مارچ 2023کاحکمنامہ پڑھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل ایسے پڑھ رہے ہیں ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کے وکیل نے تحریری بیان اور تصدیق دکھانی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وکیل کوہردومنٹ بعد کہنا پڑے گاکہ پڑھیں، پڑھیں۔ کورٹ ایسوسی ایٹ نے کیس کی فائل چیف جسٹس کودی تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آرڈر نہیں پڑھنا وکیل کودیں وہ آرڈر پڑھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ اسلامی طریقہ ہے کہ جب جج بولے گاتووکیل درمیان میں بولے گا،اس حوالہ سے کوئی حدیث لادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لین دین کے معاہدے پر درخواست گزاردستخط مان رہے ہیں تاہم وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے دستخط خالی کاغذ پر کئے تھے۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ ہماری غلطی تونہیں کہ خالی کاغذ پر دستخط کریں، آپ کاآپس میں اتنا اعتبارہوگا کہ خالی کاغذ پردستخط کئے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے زمانہ میں ایک ہی طریقہ ہوتاتھا فائل پڑھ کر دلائل دیتے تھے،آج کل کابلیت بڑھ گئی ہے،وکیل بغیر فائل پڑھے دلائل دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل ہماری معاونت نہ کریں، وکیل نے اپناکیس بنانا ہوتاہے۔ اس موقع پر سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردیں میں تیاری کرکے آجائوں گا۔اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کل کتنے بجے سماعت رکھیں وکیل نے کل کی تاریخ دے دی ہے، وقت بھی بتادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار اور مدعا علیہ نے معاہدے پر تین جگہ درست دستخط کئے ہیں۔ چیف جسٹس کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کتنا جرمانہ لگائیں۔

سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ دستخطوں کافارنزک کروالیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ وکیل فارنزک کی درخواست دے دیتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں نظرثانی درخواست دائر کرکے مئوکل کے پیشے ضائع کرواتے ہیں۔ سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ بادی النظر میں نظرثانی کاکیس بنتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پانچ مرتبہ نظرثانی کیس سماعت کے لئے مقررہوا ہے، عدالت کاکتنا وقت ضائع کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج کل سچ جھوٹ کافرق ختم ہو گیا ہے چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ فروخت کے معاہدے پردرخواست گزاراور مدعا علیہ کے دوجگہوں اورایک رسید پر درست دستخط موجود ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے خالی کاغذ پر دستخط کیئے تاہم یہ نہیں بتایا کہ کیوں دستخط کئے تھے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیس دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل نے سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے ہوئے لکھا کہ یہ نظرثانی کافٹ کیس ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میںلاپرواہی نہیں برتنی چاہیئے، وکیل کاسرٹیفیکیٹ بامعنی دستاویز ہے جس کو بے معنی نہیں بنانا چاہیئے۔

چیف جسٹس کاوکیل منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ خرچے کامطالبہ کریں گے۔ اس پر منیر پراچہ کاکہناتھا کہ جانے دیں۔ عدالت نے نظرثانی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے عبدالحفیظ لونی کی جانب سے الیکشن ٹربیونل ہائی کورٹ بلڈنگ، کوئٹہ اوردیگر کے خلاف قومی اسمبلی کاالیکشن نہ لڑنے دینے کے فیصلہ کے خلاف دائر نظرثانی پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین شاہ نے بتایا کہ اس کیس کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ میر اورنگزیب سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری کاانتخاب لڑرہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ توکیا سپریم کورٹ کوبند کردیں، آپ اگر اس کیس میں وکیل نہیں توعدالتی کام میں کیوںمداخلت کررہے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کورٹ ایسوسی ایٹ حنا امتیاز کو ہدایت کہ کہ اگلا کیس پکاریں۔ جبکہ تمام کیسز کی سماعت کے بعد دوبارہ عبدالحفیظ لونی کاکیس پکاراگیا تونہ وکیل اور نہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود تھے۔ عدالت نے عدم پیروی کی بنیاد پر نظرثانی درخواست خارج کردی۔