اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وکیل پر نہ کوئی کنڈکٹ نہ کوئی اخلاق لاگوہوتا ہے،جلائوگھیرائو، بدمعاشی، پہلے مزدوریونین کرتی تھی اب وکیل کررہے ہیں،کہتے ہیں ہم عدالتوں کوتالے لگائیں گے ۔ نئی نسل سینئروکلاء کی وجہ سے خراب ہورہی ہے۔ ہم اپنے زمانے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جب جج بولے توہم درمیان میں بولیں، اب چیخ وپکارکرو، جلسے جلوس نکالو،ڈنڈے مارو، یہ وکالت ہوگئی ہے، تقریریں کریں گے عدالت میں بات نہیں کریں گے، بار کے الیکشن جیتنے کے بعد فائرنگ کروارہے ہیں، وکلاء دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے،ابک شور مچائو اور چیخ وپکارکرویہی ہے وکالت۔ جب ہم بولیں گے وکیل بھی اسی وقت بولیں گے ، پتانہیں کیسے ہوگئی ہے وکالت، جج بولے توبیچ میں چیخے جائو۔
ریونیو حکام سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہیں کررہے توان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں اور عملدرآمدکی درخواست دائر کرنا ہوتی ہے۔ عدالت کاوقت زیادہ اہم ہے یا شوکت خانم کا۔ آج کل وکیل ہمیں بتائیں گے کہ عدالت کیسے چلائیں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ پلیٹ میں اتناکھانا رکھو جتنا کھاسکو، اگر کم ہوجائے توبعد میں لے لو۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فائنل کازلسٹ میں شامل 5کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے نواب خان اوردیگر کی جانب سے محمد یوسف اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزا روںکی جانب سے محمد جاوید یوسفزئی اور مدعا علیہان کی جانب عبدالستارخان بطور وکیل پیش ہوئے۔
چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اِس عدالت نے یہ کہا، اُس عدالت یہ کہا ، ہمیں کیس کی تاریخ سے کوئی دلچپسی نہیں، اگرزمین کے مالک ہیں توملکیت کاٹکڑادکھائیں، ریکارڈ سے بات کریں، ہوامیں با ت نہ کریں، یہ تقریر، وہ تقریر بس، ہوا میں باتیں نہیں سنیں گے کسی کاغذ کاحوالہ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل نے صفر وکالت کی، 2018کا کیس ہے 2024آگیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب ہم بولیں گے وکیل بھی اسی وقت بولیں گے ، پتانہیں کیسے ہوگئی ہے وکالت، جج بولے توبیچ میں چیخے جائو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وہ شادی شدہ تھی اُس کے چار بچے تھے مگر ججز کے سوال کاجواب نہیں دیں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے 20کنال 2مرلے زمین ارشاد بی بی کی بہن جہاں افروز سے خریدی تھی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ انتقال کروالیا تھا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جلدی کریں وقت ضائع نہ کریں، ہم بھاری جرمانہ عائد کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم سوال پوچھیں گے کوئی چیز نہیں دیکھیں گے، یاتوکہیں وکلالت بھی ججز نے کرنی ہے توہم وکالت کرلیں گے۔
چیف جسٹس کاکہنا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ ہم نے تفصیل سے کیس سنادرخواست گزارکے وکیل نے ان دستاویزات کے حوالہ سے دلائل دیئے جوانہوں نے جمع بھی نہیں کروائی تھی۔ درخواست گزارکے وکیل مزید دستاویزات جمع کروانا چاہتے ہیں توکروادیں جبکہ مدعا علیہ کے وکیل بھی مزید دستاویزات جمع کروانا چاہتے ہیں توکرواسکتے ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر میسم رضا خان کی جانب سے ممبر (جوڈیشل VII)، پنجاب ، لاہور اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد شہزاداعوان بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل ہمارے سوالوں کے جواب دیں، اِدھر سے جائوں گا، اُدھر سے جائوں گا،یہ وکیلوں کاکام نہیں، یہ سپریم کورٹ ہے، اِدھر سے جائو ں گا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھاکہ کیوں ہم جرمانے کے ساتھ درخواست خارج نہ کریں۔درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ جب میں ڈیڑھ سال کا تھا تومیرے والد نے میرے نام زمین لگوائی اور بعد میں دوبارہ اپنے نام کرواکربیچ دی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس قسم کاانتقال ہے ، اب آپ تقریر کردیں گے۔چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ہم سے نہیں اپنے مئوکل سے جاکرمعذرت کریں گے۔جسٹس شاہد بلال حسن کاکہناتھا کہ یہ کیس مثالی جرمانے کے ساتھ خارج ہونا چاہیئے کیونکہ درخواست اپنے کیس کودوبارہ کھلوانے سپریم کورٹ آئے ہیں جس کاہمیشہ ، ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرریونیو حکام سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہیں کررہے توان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں اور عملدرآمدکی درخواست دائر کرنا ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارفیصلے پر عملدرآمد میں مزاحمت کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم اپنے زمانے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جب جج بولے توہم درمیان میں بولیں، اب چیخ وپکارکرو، جلسے جلوس نکالو،ڈنڈے مارو، یہ وکالت ہوگئی ہے، تقریریں کریں گے عدالت میں بات نہیں کریں گے، بار کے الیکشن جیتنے کے بعد فائرنگ کروارہے ہیں، وکلاء دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے،ابک شور مچائو اور چیخ وپکارکرویہی ہے وکالت، مہذب معاشروں میں اختلافِ رائے رکھنے کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب تک کچھ سوال کاجواب نہیں دیں گے ہم کچھ نہیں پڑھیں گے۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ بنیادی طور پرآپ اپنے خلاف آئے ہیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کے والد کانام امیر علی رضاحیات خان ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اپنے والد کے خلاف ریلیف مانگ رہے ہیں ان کوفریق ہی نہیں بنایا۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے وکالت کہاں سے کی ہے، کیس دائر کرنے کاطریقہ نہیں پتا، دیگر لوگوں کو فریق بنایا جن سے جھگڑا ہی نہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے جرمانہ کیا تھا وہ اداکیا کہ نہیں، آپ پرجرمانہ بڑھا کر تین گناکردینا چاہیئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جرمانہ معاف کردیں میں درخواست واپس لے لیتا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جرمانہ بالکل معاف نہیں کریں گے۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خاری کردی۔ بینچ نے اللہ دتہ اوردیگرکی جانب سے محمد یوسف اوردیگر کے خلاف کیس بحالی کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین شاہ اوردرخواست گزار کے وکیل بیٹے عدالت میں پیش ہوئے۔ سید رفاقت حسین شاہ کاکہناتھا کہ میں مختلف عدالتوں میںبھاگ رہاہوتا ہوں۔اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اپنا کام کردیں، ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ پلیٹ میں اتناکھانا رکھو جتنا کھاسکو، اگر کم ہوجائے توبعد میں لے لو، اگر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے پاس زیادہ کام ہوگیا ہے توکم کرلیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم احسان مند ہیں کہ وکیل جج کووقت دے رہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جملہ بھی مکمل نہیں ہوتا وکیل نے درمیان میں ضرور بولنا ہوتا ہے، 1986میں زمین کی خریداری کے معاہدے کے بعد 20سال بعد رقم اداکی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل بیٹے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اگرکوئی فریق خود پارٹی بھی ہے اوروہ وکیل ہے تو کیا یہ مس کنڈکٹ نہیں کہ وہ وکیل کی وردی میں عدالت میں پیش ہو، کیا ہم وکیل کی وردی سے متاثر ہوکرفیصلہ کریں گے، وکیلوں کاکوئی کنڈکٹ نہیں رہا، عدالت کو متاثر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وکیل ہے ، بتادیں کہ وکیلوں کے لئے اور عام مخلوق کے کیسے فیصلے ہوں گے،ہم اس سے بالکل متاثر نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل پر نہ کوئی کنڈکٹ نہ کوئی اخلاق لاگوہوتا ہے،جلائوگھیرائو، بدمعاشی، پہلے مزدوریونین کرتی تھی اب وکیل کررہے ہیں،کہتے ہیں ہم عدالتوں کوتالے لگائیں گے،یہ کہہ دیں ہم نے چائے پی ، رشتہ لینے گھرگئے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ نئی نسل سینئروکلاء کی وجہ سے خراب ہورہی ہے۔عدالت نے 2021کے فیصلے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔ بینچ نے محمد اعظم خان اوردیگر کی جانب سے عبدالرحمان اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پرسماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے التواکی درخواست دائر کی گئی۔ ہائی کورٹ کی وکیل صائمہ حنیف نے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری سے پیش ہوکربتایا کہ ان کے سینئر ملک نورمحمد اعوان چیک اپ کروانے شوکت کانم ہسپتال گئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عدالت کاوقت زیادہ اہم ہے یا شوکت خانم کا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی درخواست میں کیا استدعا کی ہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ وکیل کے بیٹے بھی وکیل ہیں وہ ساراکام دیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیا باپ بیٹے کی آپس میں ناراضگی ہے چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج کل وکیل ہمیں بتائیں گے کہ عدالت کیسے چلائیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 14مئی 2024کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی مانگی گئی ہے، فائل سینئر لے گئے ہیں، وکیل کے بیٹے بھی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں وہ بھی موجود نہیں، عدالت کے بعد ڈاکٹر سے وقت لے سکتے تھے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ ہم نے نظرثانی درخواست پڑھی تاہم کوئی وجہ نہیں بتائی گئی جس کی بنیاد پر فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ عدالت نے التواکی درخواست مسترد کرتے ہوئے نظرثانی درخواست بھی مسترد کردی۔