دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کیس کی سماعت،یہ غیر معمولی کیس ہے عام کیس نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ حکومت ڈیم فنڈز کی رقم پر اپنے آپ کو مارک اپ دے رہی ہے،مارک اپ اصل رقم سے زیادہ ہے، کس نے مارک اپ اداکیا ہے، کیا قدرت دے دیتی ہے۔11ارب روپے سے 23ارب روپے ہوگئے۔ یہ توآنکھوں میں دھول ڈالنے والی بات ہے، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں 23ارب روپے جمع کرلئے۔

حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان عوامی پیسے کے امین ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک جیب سے رقم نکال کردوسری جیب میں ڈال رہا ہے۔ جب سپریم کورٹ حکم جاری کردیتی ہے توپھر معاملہ ختم ہوجاتا ہے پیش رفت رپورٹ کیوں سپریم کورٹ میں جمع کروائی جارہی ہے، کیا سپریم کورٹ منصوبے کو چلائے گی، کیاآئین اورقانون اس کی اجاز ت دیتا ہے، کیوں پاکستان میں یہ چیزیں ہورہی ہیں میں سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ غیر معمولی کیس ہے عام کیس نہیں، حکومت اپنے آپ کو پیسے دے رہی ہے، یہ عجیب بات ہے، کوئی بھی حل نہیں بتارہے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ہم معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں منصوبہ آگے بڑھتا رہے، ہمارے پاس ہزاروں کیسز ہیں کسی کوغیر معینہ مدت تک نہیں سن سکتے۔ ہم رقم کاتحفظ چاہتے ہیں ، حکومت اسے استعمال نہیں کرسکتی، حکومت نہیں نجی شعبہ سے مارک اپ کمائیں۔ یہی مسئلے ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ عجیب عجیب چیزیں کرے۔

جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں حکومت کی حالت ٹھیک نہیں اوراگرکل کو حکومت واپڈا کو رقم نہ دے توکیا ہوگا۔جبکہ ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان غفران میمن نے عدالت کوبتایا ہے کہ ڈیم فنڈ میں موجود رقم ڈیموں کے پراجیکٹ ائریکٹر کے پاس جائے گی، ہم نے حال ہی میں تحقیقات کیں تاہم ڈیم فنڈ میں کسی قسم کی کوئی خردبردثابت نہیں ہوسکی، رقم کی سرمایاکاری کی گئی۔جبکہ عدالت نے ڈیمز فنڈز پرائیوٹ بینکس میں مارک اپ کے لیے رکھنے سے متعلق وفاقی حکومت، واپڈا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے جمعہ تک رپورٹ طلب کرلی۔جبکہ عدالت کی جانب سے طلب کرنے کے باوجود سابق اٹارنی جنرل انورمنصورخان اور سابق عدالتی معاون سینئر وکیل مخدوم علی خان پیش نہ ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان، واپڈا کے وکیل سعد رسول، پرائیویٹ درخواست گزاروں کے وکیل محمد منیر پراچہ، سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، لیگل ایڈوئزر اسٹیٹ بینک آف پاکستان محمود نذیر رانا، ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان غفران میمن، ڈپٹی آڈیٹر جنرل محمد اظہر اوردیگر حکام پیش ہوئے۔ سعد رسول نے بتایا کہ کیس کی آخری سماعت 11ستمبر2024کوہوئی تھی،عدالت نے سپریم کورٹ اور وزیر اعظم یم فنڈ کے اکائونٹ میں موجودرقم کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ لیگل ایڈوائزراسٹیٹ بینک نے بتایا کہ انہوں نے رپورٹ جمع کروادی ہے۔

محمود نذیر رانا کاکہنا تھا کہ ڈیم فنڈکی کل رقم 11ارب 47کروڑ روپے سے زائد جمع ہوئی، بکہ 4اکتوبر2024تک اس رقم پر 12ارب 20کروڑ روپے کے قریب مارک اپ لگا ہے جبکہ کل رقم 23ارب 67کروڑ روپے سے زائدہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ مارک اپ اصل رقم سے زیادہ ہے، کس نے مارک اپ اداکیا ہے۔اس پر اسٹیٹ بینک کے نمائندے کاکہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیشنل بینک آف پاکستان کے زریعہ حکومت کے ٹریثری بلز کی مد میںسرمایاکاری کی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا قدرت دے دیتی ہے، حکومت پاکستان اپنے آپ کو مارک اپ دے رہی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک سے حساب کتا ب سے منسلک شخص آئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 11ارب روپے سے 23ارب روپے ہوگئے۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈفکسڈانکم سیلز طحہٰ سجاد نے بتایا کہ ہمیں تین مہینے کے ٹی بلز میں سرمایاکاری کاکہا گیا تھا، حکومت پاکستان مارک اپ اداکررہی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ توآنکھوں میں دھول ڈالنے والی بات ہے، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں 23ارب روپے جمع کرلئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان عوامی پیسے کے امین ہیں۔ چیف جسٹس نے آڈیٹر جنرل آفس حکام سے سوال کیا کہ وفاق کا عوامی اکائونٹ کیا چیز ہے، یہ اکائونٹ کون چلاتا ہے۔ اس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کرتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیا سپریم کورٹ یہ رقم اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔ اس پر غفران میمن کاکہنا تھا کہ نہیں رکھ سکتی۔ غفران میمن کاکہناتھا کہ یہ کسی اوراکائونٹ میں رکھا گیا تھااورحکومت کی بیلنس شیٹ پر ظاہر نہیں ہورہا تھا، چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے مشترکہ نام پر اکائونٹ کھولاگیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ ایسا سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے یہ نشاندہی کیوں نہیں کی گئی کہ یہ غیر آئینی اورغیر قانونی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ واپڈا وکیل کی استدعا ہے کہ یہ رقم واپڈا کے اکاوئنٹ میں جمع کروایا جائے اس حوالہ سے آگے بڑھنے کاطریقہ کیا ہے۔ غفران میمن کاکہنا تھا کہ رقم ڈیموں کے پراجیکٹ ائریکٹر کے پاس جائے گی۔ غفران میمن نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں تحقیقات کیں تاہم ڈیم فنڈ میں کسی قسم کی کوئی خردبردثابت نہیں ہوسکی، رقم کی سرمایاکاری کی گئی۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ پہلے وفاقی حکومت کے پبلک اکائونٹ میں رقم جائے گی اور پھر واپڈا کے اکائونٹ میں جائے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اکائونٹ کاٹائٹل مناسب نہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیر اعظم آف پاکستان کاٹائٹل عجیب ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ حکم جاری کردیتی ہے توپھر معاملہ ختم ہوجاتا ہے پیش رفت رپورٹ کیوں سپریم کورٹ میں جمع کروائی جارہی ہے، کیا سپریم کورٹ منصوبے کو چلائے گی، کیاآئین اورقانون اس کی اجاز ت دیتا ہے، کیوں پاکستان میں یہ چیزیں ہورہی ہیں میں سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ آئین اورقانون میں عملدرآمد بینچز بنانے کی کوئی شق موجود نہیں تاہم ایسا کرنے کی ممانعت بھی نہیں۔ چیف جسٹس نے واپڈاوکیل کوہدایت کی کہ وہ آئین کاآرٹیکل 184-3اور187پڑھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ حکم دیتی ہے اوراس پر عملدرآمد نہیں ہوتا توکیا توہین عدالت کی کاروائی شروع کرسکتی ہے یاعملدرآمد بینچ بناسکتی ہے، کیسے اس کوزیر التوارکھا جاسکتا ہے،آئین کہاں ہمیں یہ اختیار دیتا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں آرٹیکل 175-2نہیں پڑھتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ہم غلط حکم جاری کریں تویہ وکیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ کہے کہ یہ غلط حکم ہے، کب یہ معاملہ شروع ہوا۔ سعد رسول کاکہناتھا کہ یہ معاملہ 2018میں شروع ہوا 2018 سے لے کر اب تک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کروائی ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کے اختیار پر سوال اٹھا سکتے تھے کہ آپ کااختیار نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے رپورٹس دیکھیں تاہم مجھے سر اورنہ دم کاپتا چلا۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ ان رپورٹس میں کوئی قانونی نقطہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ ہماری آبزرویشنز نہیں بلکہ سوالات ہیں۔ سعد رسول کاکہناتھاکہ دیامر بھاشہ ڈیم پر 480ارب روپے اور مہمند ڈیم پر 260ارب روپے لاگت آئے گی۔

چیف جسٹس کاسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں موجود سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا اپ نے سنا جو بحث ہورہی تھی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے آئینی سوال پر بات کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نظرثانی میں نہیں بیٹھے بلکہ رقم اور مارک اپ کے معاملہ پر سماعت کررہے ہیں، دوسرا واپڈا سے رپورٹس طلب کرتے ہیں اور 19رپورٹس جمع ہوچکی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہم رقم نہیں رکھ سکتے، وفاق کے پبلک اکائونٹ میں جمع کروائیں، کیاہم ایساکرسکتے ہیں کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم آئینی پوزیشن جاننا چاہتے ہیں تاہم خالد جاوید خان اس حوالہ سے نہیں بتارہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حکومت بجٹ فراہم کرتی ہے جس سے سپریم کورٹ چلتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں ہم اس سلسلہ کوختم نہ کریں۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ فنڈز کے اکانٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، اخبارات میں آج کل بہت کچھ چھپ رہا ہے۔اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم آئینی سوال پوچھ رہے ہیں ، سپریم کورٹ میں اخبار پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیوں ایسی باتیں کررہے ہیں جوآرڈر کاحصہ نہیں، سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین ، قانون اور آرڈر پر فوکس رہیں۔ سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے، جب ڈیمز فنڈز کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184-3 کے اختیار کا پھیلا پورے ملک تک تھا۔

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے۔خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ رقم منتقل کرنے کی تجویز سے متفق نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں آئین سے غرض ہے اس چیز سے نہیں کہ آپ او رہم کیا کہہ رہے ہیں، ہم کس دائرہ اختیار کے تحت کام کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ اٹارنی جنرل تھے آپ کی ذمہ داری تھی کہ عدالت کی معاونت کرتے۔ کوئی پوزیشن لیں ہم مجبورنہیں کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین میں نہیں توکہہ دیں ہم آپ کوآئینی ماہرتصورکرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے پوری دنیا کے ممالک کے آئین کی پاسداری کاحلف نہیں اٹھارکھا، آئین میں جو ہے وہ ہے جو نہیں ہے وہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ڈیم بننے تک رپورٹس جمع ہوتی رہیں گی ہم رپورٹس کاکیا کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل انورمنصورخان کہاں ہیں۔

اس پر کورٹ ایسوسی ایٹ حنا امتیاز نے بتایا کہ وہ نہیں آئے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ انورمنصورخان نے لکھا ہے کہ وہ سفر کرنے سے قاصر ہیں وہ ویڈیولنک کے زریعہ مخاطب ہوسکتے تھے، ہم نے نہیں کہا کہ وہ سفر کرکے آئیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک ہوا چلتی ہے پھر دوسری ہواچلتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیس میں سابق عدالتی معاون مخدوم علی خان اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا پرائیویٹ بینکوں کے پاس اس رقم کی سرمایاکاری ہوسکتی ہے۔اس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران احمد کاکہنا تھا کہ پرائیویٹ بینکوں کو یہ رقم نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ غیر معمولی کیس ہے عام کیس نہیں، حکومت اپنے آپ کو پیسے دے رہی ہے، یہ عجیب بات ہے، کوئی بھی حل نہیں بتارہے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ سعدرسول کاکہنا تھا کہ مجھے اجازت دیں مئوکل سے مشاورت کرسکوں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نجی شعبہ کنٹری بیوٹ کرے نہ پبلک سیکٹر ہی خود کو مارک اپ کی ادائیگی کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایسی روایت قائم نہیںکرنا چاہتے جس پرسوال اٹھے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ حکومت کی حالت ٹھیک نہیں اوراگرکل کو حکومت واپڈا کو رقم نہ دے توکیا ہوگا،کوئی مارک اپ آتا ہے توآتارہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک جیب سے رقم نکال کردوسری جیب میں ڈال رہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایسا کردیتے ہیں جب ضرورت ہوگی واپڈا سے رپورٹ مانگ لیں گے ، کیس کی فائل بڑھتی جارہی ہے ہم اس کاکیا کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں منصوبہ آگے بڑھتا رہے، ہمارے پاس ہزاروں کیسز ہیں کسی کوغیر معینہ مدت تک نہیں سن سکتے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم رقم کاتحفظ چاہتے ہیں ، حکومت اسے استعمال نہیں کرسکتی، حکومت نہیں نجی شعبہ سے مارک اپ کمائیں،ہم حکومت پر بوجھ نہیں ڈالانا چاہتے، رپورٹس دینا بند کریں اور معاملہ ختم کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اتفاق رائے سے حکم جاری کرنا چاہتے ہیں، دوکافی ہیں مشاورت کرکے بتائیں۔ سعد رسول کاکہناتھا کہ چیئرمین واپڈا سے مجھے مشاورت کرنے دیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا چیئرمین واپڈا وکیل ہیں، اُن کوبھول جائیں، یہ مالیاتی معاملہ ہے اُن کو سمجھانے میں 3دن لگ جائیں گے۔ چیف جسٹس کاچوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعد رسول اسلام آباد نہ چھوڑیں۔ اس موقع پر متاثرین کے وکیل محمد منیر پراچہ نے عدالت میں کہا کہ تھرڈ پارٹی تنازعات بھی اس کیس سے جڑے ہوئے ہیں، یہ معاملات ہائی کورٹ کو بھجوادیں تاکہ وہ اس پر فیصلے کریں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اس وقت نظرثانی دائر نہیں کی، جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ان کیسز کوالگ کردیں گے اوراپیلز لگ جائیں گی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ تجویز آرہی ہے اس پر آرڈر کے بعد اپیلیں کسی اور بینچ میں لگوالیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہی مسئلے ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ عجیب عجیب چیزیں کرے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ متفقہ آرڈر ہونے دیں پھر اس کی بنیاد پر ان اپیلوں پر فیصلہ لے لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کرنا چاہتے ہیں مگرکریں کیسے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پرائیویٹ درخواست گزاروں کی درخواستیں الگ کردیں۔ بعد ازاںعدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعہ 11اکتوبر تک ملتوی کردی۔