شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اسرائیلی جارحیت پر کھل کر بات کی جائے، حافظ نعیم الرحمن

 اسلام آباد(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ایوان صدر میں فلسطین پر ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت پر زور دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جائے، اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی اسرائیلی جارحیت پر کھل کر بات کی جائے، حماس کو نہ صرف فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے بلکہ اس کا اسلام آباد میں دفتر بھی قائم کیا جائے، حکومت پاکستان کی جانب سے دوریاستی حل کی نہیں بلکہ صرف اور صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا موقف اختیار کیا جائے، ایک اسلامی نظریاتی اور نیوکلیئر ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ فلسطین و کشمیر پر موثر اور جاندار کردار ادا کرے، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف حکمت عملی کی تشکیل کے لیے خصوصی طور پر سعودی عرب اور ایران سے رابطے کرنا ہوں گے۔ بھارت اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اسے تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے شرکت کی۔ نائب امیر لیاقت بلوچ اور ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی آصف لقمان قاضی بھی امیر جماعت کے ہمراہ تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ پر 85ہزار ٹن بارود پھینکا گیا، 80سے 90فیصد شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لگ بھگ دس ہزار لوگ ملبے تلے دفن ہیں، 43ہزار شہادتیں ہوئیں جن میں 30 ہزار بچے اور خواتین ہیں، اسرائیلی نے سیکڑوں صحافیوں، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو قتل کیا، جنیوا کنونشن کے مطابق غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے، ہمیں بطور ریاست اس انسانیت سوز مظالم پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، دوریاستی حل کی تجاویز پاکستان اور اس کے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی اور دیرینہ موقف سے روگردانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کے بعد ایران، لبنان اور یمن پر بھی حملہ آور ہے اور اسے امریکا مسلسل اسلحہ فراہم کر رہا ہے، گزشتہ پانچ برسوں میں واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کو 310بلین ڈالر کی براہ راست مدد فراہم کی گئی، اسرائیل کا 80فیصد اسلحہ امریکا کا فراہم کردہ ہے جو ہمارے بچوں کے قتل کے لیے استعمال ہو رہا ہے، صہیونی ریاست اس لیے بے لگام ہے کیوںکہ اسے امریکا ،

برطانیہ کی سپورٹ حاصل ہے اور عرب ممالک اور اسلامی ممالک خاموش ہیں، اگر آج فلسطینی بچے شہید ہو رہے ہیں تو حکمران جان لیں کہ یہ سلسلہ کل ان کے بچوں تک بھی پہنچ جائے گا، یہ سلسلہ روکنا ہو گا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ معیشت کا مسئلہ ہے، ہمارا موقف ہے کہ آج معیشت اس دور سے کمزور نہیںجب بانی پاکستان نے اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد قرار دے کر کہا تھا کہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا، امریکا کے دبائو میں آنے کی ضرورت نہیں، اللہ پر بھروسہ کر کے مظلوموں کی مدد کا اعلان کریں، معیشت کے راستے خودبخود کھل جائیں گے۔ حماس کے مجاہدین نے مادی وسائل کے نہ ہوتے ہوئے بھی 7اکتوبر کو اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی کو شکست دے دی اور رازداری سے آپریشن کی تاریخ رقم کی۔

انھوں نے کہا کہ سازش کے تحت اس وقت شیعہ سنی فرقہ واریت پھیلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ہمیں جان لینا چاہیے کہ اسرائیلی میزائل شیعہ سنی کی تفریق کیے بغیر سب کو نشانہ بنا رہے ہیں، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت اس کی مثال ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ امت کے لیڈران متحد ہو کر غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں، فلسطینی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، مجوزہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں آرمی چیفس کو بھی مدعو کیا جائے اور ان کے ساتھ پلاننگ کی جائے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ کیسے روکنا ہے، ہمیں سفارت کاری کو موثر کرنے کی ضرورت ہے، فرینڈز آف فلسطین سے بات کی جائے، جاندار موقف اپنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی مالی امداد وقت کی ضرورت ہے، زخمیوں کی دیکھ بھال کے اقدامات کرنا ہوں گے، جماعت اسلامی الخدمت فائونڈیشن کے تحت یہ سب کچھ کررہی ہے، چاہتے ہیں حکومتی سطح پر موثر اقدامات بھی ہوں، فلسطینی طلبہ کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اے پی سی کا انعقاد جماعت اسلامی کی کاوشوں کا ثمر ہے، کشمیر کی طرح فلسطین کے معاملے پر اکٹھا ہونا اور غزہ کی حالیہ صورت حال پر مشترکہ موقف ضروری تھا، اے پی سی میں ہر طرح کی گفتگو ہوتی ہے، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی سب نے شدید مذمت کی، کچھ چیزوں پر نکتہ نظر کا اختلاف تھا، مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق رائے ایک بہترین پیش رفت ہے۔