وکیل بچوں کااستحصال کررہے ہیں، کیا8سالہ بچی دلائل دے گی،پھر وکیل گھر جائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وکیل بچوں کااستحصال کررہے ہیں، کیا8سالہ بچی دلائل دے گی،پھر وکیل گھر جائیں، کیا وکیل کایہ کام ہے کہ 8سالہ بچی کوآگے پیش کرے۔ وکیل ہماری عزت نہ کریں بلکہ وکیل کے طور پر طرز عمل اپنائیں۔ یہ ہالی ووڈ، بالی ووڈاورلالی ووڈ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے باہر پڑھ کرآئیں کیا لکھا ہے۔ جب ماں ، باپ اورسب کی شفقت ہوگی توبچی کی بہتر پرورش ہوگی، بچی کواِدھراُدھر نہ کھینچیں ہم بچی کی بہتری دیکھ رہے ہیں۔جبکہ چیف جسٹس نے9سالہ بچی کی تحویل کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی2025کی موسم گرماکی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز 9سالہ بچی کی تحویل اورجہیز کے سامان کی واپسی کے معاملہ پر عمران علی اور خسانہ فیاض کی ایک دوسرے کے خلاف دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ فریقین کی جانب سے مس رحیمہ خان، مسز کوثر اقبال بھٹی اورامتیاز احمد کیفی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ درخواست گزار عمران علی اسلام آباد اور بچی اپنے نانا، نانی کے ہمراہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موجود تھی۔ عمران علی کادوران سماعت کہنا تھا کہ بچی اس کے حوالہ کی جائے وہ بچی کی بہترپرورش کرسکتے ہیں، والدہ پاکستان میں موجود نہیں اور بچی نانی کے پاس رہ رہی ہے۔ چیف جسٹس کاعمران علی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نوکری پر نہیں جاتے، خود کیسے خیال رکھیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بچی سے والد کوملنے دیتے ہیں کہ نہیں ، کیاآرام سے بیٹھ کرتصفیہ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا عمران علی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کتنا خرچ دیتے ہیں۔اس پر عمران علی کاکہنا تھا کہ 20ہزارماہانہ خرچ دیتا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کی دوسری اہلیہ سے بھی دوبیٹیاں ہیں، ابھی وہ اسکول داخل نہیں ہوئیں، یاتوکہیں کہ نانی بہت خراب عورت ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ رخسانہ فیاض مستقل یا عارضی طور پر برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایسے معاملات عدالتوں میں آنے ہی نہیں چاہیں۔ عمران علی کاکہنا تھا کہ بچی 8سال سے نانی کے پاس رہ رہی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں جب حج پر گیا توواپسی پر میرے بچے میرے پاس نہیں آرہے تھے بلکہ اپنے نانا، نانی کے پاس جارہے تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ طلاق کے بعد درخواست گزارکے دوسری شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں، پہلی اہلیہ بچی کوباہر نہ لے جائے، والدہ برطانیہ میں ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیاپہلی اہلیہ عارضی طور پر برطانیہ گئی ہیں یا مستقل رہاں رہ رہی ہیں۔ رخسانہ فیاض کی وکیل کاکہنا تھا کہ ان کی مئوکلہ بی اے آنرز کرنے برطانیہ گئی ہیں اوروہ 30جون 2025کو واپس آجائیں گی۔ درخواست گزار کی وکیل کاکہنا تھا کہ 12فروری 2023کو بیرون ملک گئی ہیں اورواپس نہیں آئیں۔ اس پرچیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک ، دوسال تولگتے ہی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کیس کو زندہ رکھتے ہیں اور30جون2025کے بعد دوبارہ دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رخسانہ فیاض طلاق یافتہ ہیں انہوں نے اپنے حالات ٹھیک کرنا ہیں اس لئے وہ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزاربھی سعودی عرب میں تھے۔ درخواست گزار کی وکیل کاکہنا تھا کہ 2017میں طلاق ہوئی۔ دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے رخسانہ فیاض کی سفری دستاویزات عدالت کو فراہم کی گئیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ نے ایف آئی اے کودرخواست دی تھی یا عدالت میں درخواست دی تھی۔ اس پر عمران علی کاکہنا تھا کہ ان کے وکیل رفیق بھٹی نے عدالت سے ریکارڈ نکلوانے کے لئے درخواست دی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنے پیسے لگے۔ اس پر عمران علی کاکہنا تھا کہ 10ہزارروپے دیئے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ان چیزوں پر انحصار نہیں کریں گے،درست طریقہ کاراپنائے بغیر کسی کی سفری دستاویزات اٹھا کر لے آئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چاہیں توملتوی کردیتے ہیں یا کیس نمٹادیتے ہیں،

سپریم کورٹ کی آئندہ سال کی موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ہالی ووڈ، بالی ووڈاورلالی ووڈ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے باہر پڑھ کرآئیں کیا لکھا ہے۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بچوں کو تباہ نہ کریں وہ والد ہے دشمن تونہیں، آپ وکیل کاکام نہیں کررہے، بچوں کااستحصال کررہے ہیں، کیا8سالہ بچی دلائل دے گی،
وکیل گھر جائیں، کیا وکیل کایہ کام ہے کہ 8سالہ بچی کوآگے پیش کرے۔ اس دوران سماعت نانا، نانی نے بولنے کی کوشش کی توچیف جسٹس نے لاہوررجسٹری کامائیک بند کروادیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بچی کامعاملہ ہے لڑائی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل ہماری عزت نہ کریں بلکہ وکیل کے طور پر طرز عمل اپنائیں۔ چیف جسٹس حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ بچی 3فروری 2015کو پیدا ہوئی، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے گارڈین جج اور ایپلٹ کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قراردیتے ہوئے والد کی تحویل کادعویٰ خارج کردیا۔ جج نے بچی سے ملاقات کاشیڈول طے کیا جس پر عمل ہورہا ہے۔

درخواست گزارکی سابقہ اہلیہ انگلینڈ میں رہ رہی ہے اوربچی نانا، نانی کے پاس ہے۔ رخسانہ فیاض کا30جون 2025کو بی اے آنرز کا کورس مکمل ہوگا۔ درخواست گزارنے دوسری شادی کرلی ہوئی اوراس سے بھی دوبیٹیاں ہیں۔ پہلے درخواست گزارسعودی عرب میں رہتا تھا پھر واپس آگیا ہے او رنیشنل لاجسٹکس سیل میں بطور منجیر انفارمیشن کمپیوٹر ٹیکنالوجی کام کررہا ہے۔ جب والدہ کی تعلیم مکمل ہوتو پتا چلے گاکہ واپس آتی ہے کہ نہیں، تعلیم مکمل ہونے کی تاریخ تک سماعت ملتوی کررہے ہیں۔ فریقین اس پر متفق ہیں۔ جہیز کے سامان کے حوالہ سے فریقین آپس میں بیٹھ کردیکھ لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب ماں ، باپ اورسب کی شفقت ہوگی توبچی کی بہتر پرورش ہوگی، بچی کواِدھراُدھر نہ کھینچیں ہم بچی کی بہتری دیکھ رہے ہیں۔ جیسے ملاقاتیں کررہے ہیں اسی طرح کرتے رہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت سپریم کورٹ کی 2025کی موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی۔