ماضی کی اردو خالص تھی ،آج نئی نسل معیوب الفاظ استعمال کر رہی ہے :سرفراز احمد خان

کراچی (صباح نیوز)آج بولی جانے والی اردو کو کسی طور اردو نہیں کہا جاسکتا ۔ ماضی کی اردو خالص اردو تھی۔ نئی نسل کو ماضی کی خالص اردو سے آشنا کروانا ہوگا ۔ ان خیالات کا اظہار کنٹری ڈائریکٹر سلمان کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ سرفراز احمد خان رنگ نو ڈاٹ کام کی کراچی پریس کلب میں منعقد ہ پانچویں سالگرہ پر رائٹرز کنونشن اور ایوارڈز 2024 کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر تے ہوئے کیا۔

اس موقع پر صدر تقریب پروفیسر خیال آفاقی،ڈائریکٹر آرایم ڈی و میڈیا الخدمت ویمن ونگ ٹرسٹ محمد اصغر ،چیئر مین آل پاکستان جیولرز ایسوسی ایشن محمد ارشد ،سرپرست اعلی رنگ نو وسابق صدر شعبہ اردوجامعہ اردو پروفیسر سعید حسن قادری ،شاعر ،محقق ،نقاد اور نگران اعلی رنگ نو رانا خالد محمود قیصر،سی ای او رنگ نو ڈاٹ کام زین صدیقی ،یاسمین شوکت ،غیور احمد خان اور قر العین صدیقی نے بھی اظہار خیال کیا۔

تقریب میں سینئر صحافی اے ایچ خانزادہ بھی موجودتھے، موٹیویشنل اسپیکر فرح مصباح نے خواتین قلمکاروں کو خصوصی لیکچر دیا ۔ تقرین سے خطاب میں سرفراز احمد خان نے کہا کہ بچے اب ماں باپ سے گفتگو میں وہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں جو ہمارے بچپن میں معیوب سمجھے جاتے تھے ۔بچوں کو صحیح اور غلط کے بارے میں بتانا ہوگا۔

صدرتقریب پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ لکھنے کے لیے مطالعہ نہایت ضروری ہے جب آپ پڑھیں گے نہیں تو لکھ بھی نہیں سکتے،مطالعے کے رجحان کو بڑھانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ آج کتابیں لکھنے والے تو موجود ہیں مگر  پڑھنے کے لیے کسی کے پاس  وقت نہیں ،یہ تشویشناک بات ہے۔ چیئر مین آل پاکستان جیولرز ایسوسی ایشن محمد ارشدنے کہا کہ رنگ نو بہت اچھا کام رہا ہے، اہل قلم معاشرے کی اصلاح کا کام کر رہے ہیں ،یہ خوش آئند بات ہے ۔ بزرگوں کی اہمیت اور احترام کو اجاگر جائے اور ان کے سائے کو اپنے لیے رحمت سمجھا جائے۔

ڈائریکٹر آرایم ڈی و میڈیا الخدمت ویمن ونگ ٹرسٹ محمد اصغر نے کہا کہ الخدمت ویمن ونگ ٹرسٹ نے فلسطین کے لیے بھرپور امدادی کام کیے جو اب بھی جاری ہیں ،اس کے لیے ہم اہل قلم کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور الخدمت ویمن ونگ ٹرسٹ کے ان کاموں کو مشاہدہ کریں اور ان کو معاشرے میں اجاگر کریں۔ پروفیسر سعید حسن قادری نے کہا کہ اردو کا فروغ اور ترقی وقت کی اہم ضرورت ہے ،ہمیں اس کو اہمیت دینا ہوگی۔ قلم کار جو کچھ اردو میں لکھ رہے ہیں وہ اردو سے ان کے قلبی اور روحانی تعلق کو ظاہرکرتا ہے۔

رانا خالد محمود قیصر نے کہا کہ ایک تخلیق کار کے لیے لازم ہے کہ وہ نثری یا شعری تخلیق کرے تو اس کا مثبت پہلو ہونا چاہیے۔مثنوی یا قصیدے میں پہلے چار مصرے رب ذولجلال اور رسولۖ کی تعریف میں ہوا کرتے ہیں ،اس کے بعد کسی بادشاہ کی تعریف ہو یا حالات حاضرہ کی بات ،مدح ہو یا بہتان لگانا ہو،ہمیں چاہیے کہ ہم نثری یا شعری تخلیق کررہے ہوںتو اس میں مثبت پہلو کو اجا گر کریں، یہی معاشرے کی اصلاح اورفلاح وبہبود کا بہترین طریقہ ہوگا ۔سی ای او رنگ نو نے کہا کہ رنگ نو تمام قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے کام کررہا ہے ،اہل قلم معاشرے کا اہم حصہ ہیں جو معاشرے کو سنورانے اور اسے مثالی بنانے کے ساتھ اس کی تعمیر کا کام کررہے ہیں۔

ڈائریکٹر رنگ نو یاسمین شوکت نے کہا کہ یہاں رائٹرز کو ایوارڈ دینے کا مقصد ان کی کاوشوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے ،معاشرے کی اصلاح اور تعمیر کا م قابل قدر کام ہے۔قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ تقریب مقابلہ مضمون نویسی میں طیبہ سلیم ،  شہلا خضراور لائبہ عامر کو اول دوم سوم ،افروز عنایت،لطیف النسا اور عائشہ بی کوسب سے زیادہ اور عمدہ تحریریں لکھنے جبکہ قدسیہ ملک ، نگہت فرمان ،نگہت پروین ،غزالہ اسلم اور روزینہ خورشید کو سپراسٹار رائٹرزنیلم حمید ،شبانہ حفیظ ،روشانہ جمیل ،کشف زہرہ ،ماہ نورشاہد ،احمد شفیق اور سید غلام مصطفی میں ایوارڈز تقسیم کیے گئے ۔