کاروبارٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

 واشنگٹن (صباح نیوز) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے۔ حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کو ئی چارہ نہیں،محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے نئے پروگرام کی منظوری میں امریکہ کی مدد کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ چین کے تعاون سے ہی پروگرام کا حصول ممکن ہو سکا ہے، نئے پروگرام کے حصول میں دوست ممالک نے مالیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا ۔

واشنگٹن میں امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو تو اس کے لیے ملکی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ملک کی مجموعی ترقی چار فیصد سے اوپر جاتی ہے تو ترسیلات زر میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ملک کی معیشت کو برآمدی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانا ضروری ہیں جس کے بعد ہی ملک کو آئندہ تین سال میں آگے لے کر جاسکیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کو ئی چارہ نہیں اور اس کے لیے ٹیکس نیٹ سے باہر موجود شعبوں کو دائرہ کا ر میں لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا اور ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ گزشتہ برس محصولات میں 29 فیصد اضافے کے باوجود جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 9 فیصد رہی ہے جو کہ کسی بھی ملک کی معیشت کو استحکام نہیں دلا سکتا، حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے جارہی ہے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کا م نہیں کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس لوگوں کے طرز زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، کتنے بیرون ممالک سفر کیے اور دیگر اخراجات کیا ہیں، جسے دیکھتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو حراست میں لیے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں نوکھرب ڈالر کی غیر دستاویزی معیشت ہے جسے دستاویز میں لاکر خود بخود ملکی معیشت کو ڈبل ڈیجٹ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم شہباز شریف بہت واضع سوچ رکھتے ہیں کہ کا روبار کرنا حکومت کا نہیں بلکہ نجی شعبے کا کا م ہے۔اس لیے کا بینہ کی نجکاری کمیٹی حکومتی اداروں کی نجکاری کے عمل کو آخری مراحل میں لے جا چکی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا حصہ دار ہے اور معاشی سفارت کا ری میں ہر چیز ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہے، امریکہ پاکستان کا طویل عرصے سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کی ایک واضح بنیاد یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ امریکہ ماضی میں بھی پاکستان میں سرمایہ کا ری کرتا رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں واشنگٹن کی پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی حمایت کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کا جی ایس پی پلس پروگرام پاکستانی برآمدات بالخصوص کپڑے کی صنعت کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ سی پیک ون کے بعد فیز ٹو پاکستان کی صنعت کی بحالی اور ترقی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے چینی قرض پروگرام میں آئی ایم ایف کی دلچسپی سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے دوست ممالک سے جو قرض لے رکھے ہیں اس میں چین کا حجم سب سے زیادہ ہے۔اس لیے مالیاتی فنڈ یہ پوچھتا ہے کہ اسے واپس کیسے کریں گے۔

چینی قرض کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے پالیسی بینک، نجی بینک اور حکومت کی جانب سے قرض دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان چین اور امریکہ سمیت کسی کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کی حکمت عملی نہیں رکھتا بلکہ اسلام آباد بیک وقت مشرق اور مغرب کے ساتھ معاشی و سفارتی تعلقات ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ معاشی حوالے سے پاکستان کی پالیسی اور اور کی ہے اور یہ اِدھر یا ادھر کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک مرحلہ وار عمل کے نتیجے میں منظور کیا گیا ہے۔البتہ ماضی کے پروگراموں پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ساکھ اور اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے، گزشتہ کچھ برسوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو اٹھا کہ دیکھ لیجیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں طے کیے جانے والے نکات پر عمل نہیں کیا گیا، محصولات کو بڑھانے اور اخراجات کو کم کرنا تو نظر آئے گا لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی، نجکاری جیسی اصلاحات دکھائی نہیں دیں گی، موجودہ حکومت پرعزم ہے کہ اس مرتبہ 37 ماہ کے اس آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق معاشی اصلاحات لانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے