پاکستان میں غلط کام بیوروکریسی کے ملوث ہوئے بغیر نہیں ہوتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان میں غلط کام بیوروکریسی کے ملوث ہوئے بغیر نہیں ہوتے۔ماحولیاتی مسائل کے شکار ملک میں جنگلات سے عوام کامفاد وابستہ ہے، ہم کسی کوبھی جنگلات کی ایک انچ زمین کابھی غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ زیادہ ترحکومت کی مقدمہ بازی غیر معقول ہوتی ہے۔ کام کرنا ہے تو2منٹ میں ہوجاتا ہے نہیں کرنا تو6سال نہیں کرتے۔ کیا یہ جادوئی سوال ہے کہ جس کادنیا بھر میں کوئی جواب نہیں دے سکتا کہ متعلقہ جگہ پر جنگل ہے کہ نہیں، اگر کسی اسکول کے بچے کو بھی بھجوادیں تووہ بھی بتادے گا کہ متعلقہ جگہ پرجنگل ہے کہ نہیں، یہ توچکر بازی میں رہتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل3رکنی بینچ نے منگل کے روز ممبر جوڈیشل (J-II)بورڈ آف ریونیو پنجاب ، لاہور اوردیگر کی جانب سے محمد اقبال اوردیگر کے خلاف زمین کی الاٹمنٹ کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیرسٹر محمد ممتاز علی پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیہان کی جانب سے غلام محبوب کھوکھر بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان کو بنے ہوئے 77سال ہوگئے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ یہ 1949کاایکٹ ہے جو زمین کی الاٹمنٹ کے حوالہ سے ہے، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی 1969میں تحلیل ہوگئی تھی، مدعا علیہان کی جانب سے صوبائی حکومت کو فریق نہیں بنایا گیا جبکہ محکمہ جنگلات کوفریق بنایا گیا ہے۔

ایڈیشل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ 26ہزارایکڑ سے زائد زمین محکمہ جنگلات کودی گئی تھی، موجودہ کیس میں 16کنال 4مرلے زمین کاتنازعہ ہے جو کہ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 1960میں حاصل کی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر یہ جنگلات کی زمین ہے تو کوئی اورزمین مدعا علیہان کودے دیں ۔بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ یہ زمین میانوالی مظفر گڑھ روڈ پر واقع ہے جسے مدعاعلیہان چھوڑنا نہیں چاہتے۔ وکیل مدعاعلیہان کاکہنا تھا کہ میرے پاس 1986سے قبضہ ہے۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ ہم جنگلات کی زمین نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کام کرنا ہے تو2منٹ میں ہوجاتا ہے نہیں کرنا تو6سال نہیں کرتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرزمین دینی ہے تواسی طرح کی اوردے دیں۔

چیف جسٹس کامدعا علیہان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاقانون کے تحت آپ کو جنگلات کی زمین دے سکتے ہیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ میری زمین تحصیل منکیرہ میں ہے۔ چیف جسٹس کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا یہ جادوئی سوال ہے کہ جس کادنیا بھر میں کوئی جواب نہیں دے سکتا کہ متعلقہ جگہ پر جنگل ہے کہ نہیں، اگر کسی اسکول کے بچے کو بھی بھجوادیں تووہ بھی بتادے گا کہ متعلقہ جگہ پرجنگل ہے کہ نہیں، یہ توچکر بازی میں رہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ زیادہ ترحکومت کی مقدمہ بازی غیر معقول ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کریں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ محکمہ سے چیک کرلیں کہ کون سی زمین دے رہے ہیں زمین پر کیا ہے رپورٹ پیش کریں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر معقول بات ہوئی تومدعا علیہان بھی مان لیں گے اورتنگ کرنا ہے تودواسری بات ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کے شکار ملک میں جنگلات سے عوام کامفاد وابستہ ہے، ہم کسی کوبھی جنگلات کی ایک انچ زمین کابھی غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معاملہ ختم کرنے کی کوشش کریں، 2014کا کیس ہے 10سال گزرگئے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار جگہ کاپلان، اردگرد کی زمین کی لوکیشن، مدعاعلیہان کی زمین اور متنازعہ 16کنال4مرلے زمین کی تصاویر فراہم کریں، گوگل لوکیشن میپ کی تصاویر بھی لگائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مدعا علیہان یاان کے وکیل کی موجودگی میں یہ مشق کی جائے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر اگر رپورٹ غیر منطقی ہوئی توپھر اسکول کے بچوں کواس کام کے لئے مقررکریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رپورٹ آنے کے دوہفتے بعد کیس دوبارہ سماعت کے لئے مقررکیاجائے۔جبکہ بینچ نے عبدالحکیم کی جانب سے حکومت خیبرپختونخوا بوساطت کلیکٹر مرادان اوردیگر کے خلاف سرکاری مقصد کے لئے حاصل کی گئی زمین کی قیمت کی ادائیگی کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل  خالد محمود کاکہنا تھا کہ وہ درخواست واپس لیتے ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ اس کیس میں سرکاری خزانہ کو12کروڑ روپے کانقصان پہنچایا گیا ہے، ہمارے محکمے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان میں غلط کام بیوروکریسی کے ملوث ہوئے بغیر نہیں ہوتے ان کو نکالو، ان کے خلاف نیب جانا ہے جائو، ہم کیا کریں۔ شاہ فیصل الیاس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 151کے نیچے دادرسی کو کالعدم قراردیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ حکومت اتنی بے یارومددگار کیوں ہے۔چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سہولت کاری میںحکومتی افسران ملوث ہیں۔ حکومت اپنی دادرسی استعمال کرے۔ عدالت نے درخواست زورنہ دینے کی بنیاد پرخارج کردی۔