چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے ہائی کورٹ کے چار ججز کے ناموں پراتفاق

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کے درمیان پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے ہائی کورٹ کے چار ججز کے ناموں پراتفاق ہو گیا۔ جبکہ قانون میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان چار ریٹائرڈ ججز کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرے گا۔ اس حوالہ سے الیکشن کمیشن کے وکیل اور رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ نے اپنے جواب کے زریعہ سپریم کورٹ کو آگا ہ کردیا۔ جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کی بطورالیکشن ٹربیونل تعیناتی کامعاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواہے اس لئے وہ اس حوالہ سے کوئی بات نہیں کرے گی۔ جبکہ عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے حوالہ سے جلد ازجلد نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جوبعد میں جاری کیاجائے گا۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کی جانب سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیس سے الگ ہونا ہے توہوجائیں۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن ٹربیونلز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں اور جلد ازجلد کیسز کافیصلہ کریں۔ ہم دشمن نہیں بلکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، کیوں پاکستان میں ہرچیز کو متنازعہ بنایا جاتا ہے، اداروں کو چلنے دیں، مسائل کوحل کریں، تنازعہ نہ بڑھائیں۔ میں جرمنی میں ہوں توپھرمشاورت کے لئے خط وکتابت سمجھ آتی ہے لیکن اگر پاکستان میں ہوں توایک کمرے میں مشاورت ہوگی۔ اگر ایک چیف جسٹس کاقریبی رشتہ دار کسی سیاسی جماعت کارکن اسمبلی ہوتوکیا اُس کو الیکشن ٹربیونلز کے لئے نامزدگیاں کرنی چاہیں۔

جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن ٹربیونل دیئے گئے وقت کے اندرانتخابی عذرداریوں کے فیصلے کریں، الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے مزید وقت کی گنجائش نہیں۔ کس قانون کے تحت ہائی کورٹ نوٹیفیکیشن جاری کرسکتی ہے،اگر الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل نہ کرتا توہائی کورٹ توہین عدالت میں بلالیتی، خود نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکتی۔ اگر مشاورت کالفظ نکال بھی دیں تو بھی الیکشن کمیشن نامزد نہیں کرسکتا بلکہ ناموں کی درخواست کرسکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز صوبہ پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے حوالہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، سلما ن اکرم راجہ ، محمد شبیر اعوان اوردیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پرسماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سکندر بشیر مہمند، ڈی جی لاء محمد ارشد، سلمان اکرم راجہ کی جانب سے سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ، شوکت بسرا کی جانب سے نیاز اللہ خان نیازی اوردیگر مدعا علیہان کی جانب سے انورمنصو خان ، عابدشاہد زبیری ،عزیر کرامت بھنڈاری،اور سمیر کھوسہ پیش ہوئے۔ سماعت کاآغاز دن 11بجکر35منٹ پر ہواجو 1بجکر20منٹ پر ختم ہوئی۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوہدایت کی کہ وہ گزشتہ سماعت کاحکمنامہ پڑھیں۔ اس دوران حامد خان روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے درخواست دی ہے کہ آپ کیس سے الگ ہوجائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ کیس اب سماعت کے لئے مقررنہیں ہوابلکہ یہ بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم سے قبل بنا تھا اورکیس 4جولائی کوسماعت کے لئے مقررہواتھا۔

چیف جسٹس کاحامد خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنے آپ کو کیس سے الگ کرنا چاہتے ہیں توکرلیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اب اپنی نشست پر جاکربیٹھیں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ملاقات ہوگئی اورکیا یہ نتیجہ خیزرہی۔ اس پر سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ ملاقات ہوگئی ہے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ نے بھی جواب جمع کروایا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ کاجواب پڑھیں۔ جواب میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان 17جولائی2024کو دن 2بجے ملاقات ہوئی، ملاقات میں4ججز کو بطور الیکشن ٹربیونل جج تعینات کرنے پر اتفاق ہواجبکہ الیکشنز ایکٹ 2017کے سیکشن 140-3میں ترمیم کے بعد چار ریٹائرڈ ججز کو الیکشن ٹربیونل کاجج تعینات کرے گا۔ سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان ججز کی بطور الیکشن ٹربیونل تعیناتی پر اتفاق ہو گیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ دونوں متفق ہیں توپھر کیا چاہتے ہیں، ملک کواستحکام کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جسے آئین نے اختیارات دیئے ہیں جبکہ عدالتوں کو بھی آئین نے اختیارات دیئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم دشمن نہیں بلکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، کیوں پاکستان میں ہرچیز کو متنازعہ بنایا جاتا ہے، اداروں کو چلنے دیں، مسائل کوحل کریں، تنازعہ نہ بڑھائیں، پہلے جاتے اورملاقات کرتے، خط وکتابت سے کیا فائدہ ہوگا،خط کیسے ڈرافٹ ہوتا ہے یہ ملک کوچلانے کاطریقہ نہیں، یہ الیکشن کامعاملہ ہے جلد ازجلد حل ہونا چاہیئے۔سکندر بشیرمہمند کاکہنا تھا کہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جلد الیکشن پیٹیشنز ختم کریں، اس حوالہ سے وقت بھی مقررکیا گیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بلوچستان سے توالیکشن ٹربیونلز کے فیصلے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس عجیب شکایت آئی کہ الیکشن ٹربیونلز کوفیصلہ کرنے کے لئے 180دن کاوقت دیا گیا ہے جبکہ الیکشن ٹربیونل نے 147دن میں فیصلہ کردیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جوکرنا ہے کریں، پارلیمنٹ کی مدت متعین کردہ ہے، حکم امتناع پر لوگ بیٹھے رہے، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے دیدہ دلیری سے غیر قانونی طور پر اسمبلی تحلیل کی اوراب وہ زیر زمین چلے گئے ہیں، ان کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے ایک جج نے فیصلے میں لکھا کہ انہوں نے آئین سے غداری کی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کتنے الیکشن ٹربیونل کام کریں گے، 8کی بجائے 4چار ناموں پر اتفاق کیا ہے، اورچارریٹائرڈ ججز ہوں گے۔ جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ کیا چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے اتفاق رائے کیا ہے کہ قانون میں ترمیم ہوگئی ہے اور باقی 4ریٹائرڈ جج لگائیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ انہیں الیکشن کمیشن کے جواب میں موجود اس فقرے پر اعتراض ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کااختیار ہے اورانہیں مشاورت کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس کا سکندر بشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیااس فقرے کو حذف کردیں گے۔

ا س پر سکندربشیر مہمند کاکہناتھاکہ حذف کردیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہرچیز کوانا کامسئلہ بنایا ہواہے۔ سکندر بشیر مہمند کاکہناتھا کہ آئین الیکشن کمیشن کوالیکشن ٹربیونلز کے ججز کے تقرر کااختیاردیتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سپریم جوڈیشنل کمیشن سے بھی اوپر ہے کہ یہ آدمی ٹھیک ہے اور یہ آدمی ٹھیک نہیں، کیا چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ عام آدمی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونلز کے قیام کا انحصار انتخابی عذرداریو ں کی تعداد پر منحصر ہے، کیسز کی تعداد کو دیکھ کرتعیناتی کریں، یہ نہ ہوکہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہوجائے اورکیسز کافیصلہ نہ ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا کہ کس صوبے میں کتنی درخواستیں زیر التواہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم جھگڑالولوگ ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن کے وکیل کابیان ریکارڈ کرلیتے ہیں کہ جلد ازجلد الیکشن ٹربیونلز کاتقررکریں گے۔ سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ ریٹائرڈ ججز پورا وقت کیسز انتخابی عذرداریاں سنیں گے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن خود چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے کہے کہ ٹربیونل کے ججز کوئی اورکیسز نہ سنیں اور صرف انتخابی عذرداریاں ہی سنیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونلز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں اور جلد ازجلد کیسز کافیصلہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونل دیئے گئے وقت کے اندرانتخابی عذرداریوں کے فیصلے کریں، الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے مزید وقت کی گنجائش نہیں۔ سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ دو، تین روز میں الیکشن ٹربینولز کے قیام کانوٹیفکیشن جاری کردیں گے۔اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایک ہفتے کالکھ دیتے ہیں۔ جب سلمان اکرم راجہ دلائل دینے آئے توچیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، سلمان صاحب! پرانا اصول ہے کہ جس وکیل کااپنا کیس ہوتا ہے وہ کالاکوٹ پہن کر پیش نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ کے وکیل حامد خان بیرون ملک تھے تاہم تاثر میرے بارے میں دیا گیا کہ میں موجود نہیں تھااس لئے سماعت نہیں ہوسکی، تاخیرآپ کے وکیل کی وجہ سے ہوئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں وکیل نے وضاحت نہیں کی اورسپریم کورٹ کو بدنام کیا گیا، کسی نے یہ کہنے کی زحمت نہیں کہ وضاحت کرتے، یہ وقت ڈالر کمانے کاہے، یہ آجاتا ہے جسٹس جمال مندوخیل دستیا ب نہیں، وضاحت دینی چاہیے تھی کہ نہیں۔

اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ وجاحت دی جانی چاہیئے تھی، میں خود بیرون ملک تھا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ پنجاب میں کل 185انتخابی عذرداریاں دائر ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جونقطہ ہے اس پر آئیں آ پ کامسئلہ حل کردیا، کیاآپ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں، کیاآپ چاہتے ہیں کہ کوئی مخصوص جج آپ کے کیس کافیصلہ کرے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں ایسا نہیں چاہتا۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرایساہی ہے توپھر یہ عدلیہ کااختتام ہوگا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہان تھا کہ میں ناصر علی خان کاوکیل ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بات طے ہوگئی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک میں پک اینڈ چوز اوردوسرے میں لاہور ہائی کورٹ نے خود نوٹیفیکشن جاری کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے آئین اورقانون کودیکھنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ پینل فراہم کرنے کاکہیں نہیں لکھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین اورقانون سے جواب دیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 8نام مانگے تھے تاہم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے 2نام بھجوائے۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ نہ کہیں کہ کون غلطی پر تھا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 5پاکستان میں کوئی پڑھتا ہی نہیں۔ اس پرسلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں روز پڑھتا ہوں،جس کے بعد سلمان اکرم راجہ نے آرٹیکل 5پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیاہم حکم دیں چیف جسٹس ٹربیونلز کے ججز کاتقررکریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں جرمنی میں ہوں توپھرمشاورت کے لئے خط وکتابت سمجھ آتی ہے لیکن اگر پاکستان میں ہوں توایک کمرے میں مشاورت ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مشاورت والایک بھی خط دکھادیں، چیف جسٹس کامشاورت والا کوئی خط دکھائیں،کس نے آپ کو بتایا کہ چیف جسٹس رجسٹرار کے زریعہ خط لکھیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں رجسٹرار نے جج کے احکامات کالعدم قراردیئے، کیا مزید اس حوالہ سے بتائوں، یہ توڈپٹی رجسٹرارنے خط لکھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بات آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں، ملاقات ہوگئی چارناموں پر اتفاق کیا، کس قانون کے تحت ہائی کورٹ نوٹیفیکیشن جاری کرسکتی ہے،اگر الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل نہ کرتا توہائی کورٹ توہین عدالت میں بلالیتی، خود نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میری خواہش ہے کہ آج ہی جاکرالیکشن نوٹیفیکشن جاری کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے ریٹائرڈ ججز کامعاملہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے توپھر اس حوالہ سے ہمارے سامنے بات نہ کریں، ہوسکتا ہے کل یہ کیس ہمارے سامنے آجائے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ہم درخواستیں نمٹائیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر وکیل نے ججز کی بات نہیں سننی اور دلائل دینے کااتنا شوق ہے توآئینہ دیکھ کردلائل دیتے رہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کاحترام کریں، میں آئین اورقانون کاپابند ہوں، فیصلوں کانہیں، کیوں چاہتے ہیں کہ کیس ختم نہ ہو، کیا ہائی کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنا ہمارے اوپرلازم ہے، کیاآئین کی کتاب اتنی مشکل ہے جس کوکوئی سمجھ نہیں سکا ہے۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ہی بحث کریں ہم سن لیتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس نیت کے ساتھ نہ آئین کہ میںنے ساری دنیا کے کے کیس چلانے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ جو نام چیف نے دیئے الیکشن کمیشن کوان کانوٹیفیکیشن جاری کرنا چاہیئے تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم نے ججز کی عزت نفس بحال کی اور چیف الیکشن کمشنر سے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملاقات کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 14فروری کے خط میں 8ججز کے نام مانگے تھے تاہم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے 20فروری کو 2نام دیئے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ نئی چیف جسٹس نے مشاورت کے بعد چارناموں کو گرادیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جسٹس شاہد کریم کااپنی ذات کے حوالہ سے حکم نہیں، انہیں خود بھی الیکشن ٹربیونل کاجج مقررکیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل کہہ رہے ہیں کہ ہم اِس جج کوتعینات کروانا چاہتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اس بات میں مسئلہ نہیں کہ جج بہاولپور میں بیٹھ کر رالپنڈی کی انتخابی عذرداریوںکوسنے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ ٹربیونل کو مانیٹر کرسکتی ہے، اگر خدانخواستہ کرپشن ہوتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل کاروائی کرسکتی ہے، میرا فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، میری انگریزی کمزورہوسکتی ہے، تاہم میری نیت میرے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان ہے، جج حلف کے تحت کام کررہا ہوتاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فروری میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کون تھے۔ اس پر بتایا گیا کہ محمد امیر بھٹی چیف جسٹس تھے۔

چیف جسٹس سلمان اکرم راجہ کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ایسی جگہ لے جائیں گے جوآپ کے لئے تکلیف دہ ہوگی، کیاآپ چاہتے تھے کہ امیر بھٹی تعیناتیاں کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ انتخابات کے 45دن کے اندر الیکشن ٹربیونلز کے ججز کاتقررہونا تھاآپ جاتے درخواست دائر کرتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نام چیف جسٹس نے دینے ہیں اورنام الیکشن کمیشن نے طلب کرنے ہیں، اگرتنازعہ ہو تومشاورت ہوگی، ہم نہیں چاہتے کہ کسی جج کے خلاف ریمارکس آجاتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ایک چیف جسٹس کاقریبی رشتہ دار کسی سیاسی جماعت کارکن اسمبلی ہوتوکیا اُس کو الیکشن ٹربیونلز کے لئے نامزدگیاں کرنی چاہیں۔ اس پرسلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ نامزدگیاں کرنی چاہیں کیونکہ یہ چیف جسٹس کاآئینی اختیار ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سید علی ظفر آتے ہیں وہ بڑی معقول بات کرتے ہیں،انتخابات کے لئے تاریخ دینے کامعاملہ دومنٹ میں حل ہوگیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میری پنجابی شاید زیادہ اچھی نہ ہوتاہم پنجابی کی مثال ہے کہ گل نوں توتول نہ دے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کسی جج کے بھائی کاکوئی حلقہ ہوتوالیکشن کمیشن اس کے کیس کودوسرے ٹربیونل کے سامنے منتقل کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ میرے صبر کاامتحان لے رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ میں کون ساسوال پوچھوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئینی اداروں کااحترام کرنا سیکھیں، اگر قانون ساز چاہیں توالیکشن کمیشن آف پاکستان کوختم بھی کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کام انتخابات کروانا ہے، ہائی کورٹ کاکام کیسز سننا ہے اور اگر ہمارے پاس اپیل آئے گی توہم اسے دیکھ لیں گے۔ سلمان اکرام راجہ کاکہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کامعاملہ کالعدم قراردیا جائے جبکہ ریٹائرڈ ججز کے حوالہ سے کچھ نہ کہیں یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواہے۔ جبکہ عزیر کرامت بھنڈاری، سمیر کھوسہ، نیاز اللہ نیازی،عابدشاہد زبیری اور انورمنصورخان نے سلمان اکرم راجہ کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹربیونلز کے لئے ریٹائرڈ ججز کامعاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس حوالہ سے کچھ نہ کہیں۔

جبکہ دوران سماعت شوکت محمود بسرا کاپیش ہوکرکہنا تھا کہ میں فارم 45کے مطابق این اے 163بہاولنگر سے 50ہزارووٹوںسے جیتا ہواہوں۔ اس پرچیف جسٹس کاکہناتھا کہ سیاسی تقریر نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 50ہزارووٹوں سے جیتا تھا یہ ساری باتیں الیکشن ٹربیونل میں جاکرکریں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاالیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ اب آپ آل ان آل ہیں جو کرنا ہے کرلیجیئے۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاکام اوراختیارات سرآنکھوں پر ، ان پربھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، یہ قانونی اسکیم ہے، اگر مسئلہ ہے تومشاورت میں بتادیں، یا توترمیم کرکے ججز کومعاملہ سے ہی نکال دیں، صرف پنجاب میں ہی مسئلہ ہوا ہے جسے چیف جسٹس نے اچھے طریقہ سے حل کردیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ اگر مشاورت کالفظ نکال بھی دیں تو بھی الیکشن کمیشن نامزد نہیں کرسکتا بلکہ ناموں کی درخواست کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ٹربیونلز کے لئے ججز کی تعیناتی کانوٹیفیکیشن جلد جاری کرے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم فیصلہ محفوظ کررہے ہیں آج نہیں سنا رہے تاہم جلد جاری کریں گے۔