پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت تعلقات بہتر ہورہے ہیں

اسلام آباد(صباح نیوز)  پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں بی بی سی کے مطابق تجارت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات پہلے ہی قائم ہو چکے ہیں۔ سارک اور او آئی سی جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے رکن کے طور پر بھی دونوں ملک مل کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ماہرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے کی ضرورت ہے۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستانیوں نے بنگلہ دیش میں چمڑے، ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

بنگلہ دیش پاکستان سے کپاس، کپڑا، کیمیکلز، معدنی اور دھاتی مواد، برقی سامان اور مشینری وغیرہ درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان بنگلہ دیش سے جیوٹ (پٹسن) اور اس کی مصنوعات، ہائیڈروجن پیرو آکسائیڈ، مصنوعی فائبر، ٹیکسٹائل اور طبی سامان درآمد کرتا ہے۔پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 60 کروڑ 33 لاکھ ڈالر سے زائد کا سامان برآمد کیا جبکہ پاکستان سے بنگلہ دیش کو 65 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی گئیں۔سنہ 2019 میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے آٹھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جہاں بنگلہ دیش پاکستان سے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے تو وہیں ایک بڑا تجارتی خسارہ ہے تاہم ماہر تجارت  توحید حسین کے خیال میں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔انڈیا اور چین کا بھی درآمدی انحصار بہت زیادہ ہے جبکہ امریکہ یا یورپ کو برآمدات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہے کہ معیشت اور کاروبار کے میدان میں یہ نارمل چیزیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ فرض کریں اگر ہم پاکستان سے بہت زیادہ روئی خریدیں گے تو پاکستان کو سرپلس مل جائے گا لیکن جو کپڑا ہم امریکہ کو برآمد کرتے ہیں اس کے لیے ہمیں کپاس درکار ہے۔

یہ چیزیں دراصل آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔فہام عبدالسلام کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے کاروباروں کے مواقع موجود ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے برانڈ ییلو کی مثال دی جس کے کچھ آٹ لیٹس پاکستان میں موجود ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی رہتے ہیں اور ہمیں اس مارکیٹ کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔ فہیم عبدالسلام کا خیال ہے کہ اگر دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے تو تجارت کے نئے مواقع کھلیں گے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی وزارت خزانہ اور تجارت کے مشیر نے بھی حال ہی میں کاروباری اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے بارے میں بات کی ہے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی کہا کہ پاکستان تجارتی پہلو کو اہمیت دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تجارت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات پہلے ہی قائم ہو چکے ہیں۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سارک اور او آئی سی جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے رکن کے طور پر بھی دونوں ملک مل کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ماہرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے کی ضرورت ہے۔آصف منیر کے خیال میں دونوں ممالک میں سماجی اور ثقافتی مماثلتیں ہیں، بنگلہ دیش میں پاکستان کے ادب، ڈرامے، فلموں اور لباس تک کو سراہا جاتا ہے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی کہا کہ دونوں ممالک کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے درمیان دوستی ہے، جس کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق کئی ممالک کی طرح پاکستان نے بھی پروفیسر محمد یونس کو بطور چیف ایڈوائزر تعیناتی پر مبارکباد دی۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفارت خانہ بھی کافی متحرک ہے۔

بنگلہ دیش میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر نے موجودہ حکومت کے مشیروں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنماں سے بھی ملاقات کی۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش کے حوالے سے مثبت اور تعمیری موقف کو ترجیح دی۔انھوں نے کہا کہ بعض اوقات مسائل بھی آئے ہیں لیکن جب ان مسائل پر قابو پانے اور تعلقات کو آگے بڑھانے کی خواہش ہو تو ہم باہمی مفاد میں آگے بڑھنے کے تمام اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔بنگلہ دیش کے مشہور مصنف فہام عبدالسلام کا خیال ہے کہ گزشتہ 15 سال میں بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انڈیا کی نظروں سے دیکھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سنہ 1971 کی تاریخ کے اردگرد ہی گھومتے رہے ہیں۔ممتاز زہرہ بلوچ نے نشاندہی کی کہ اس وقت دونوں رہنماں کی دور اندیشی نے دونوں ملکوں کو بہتری اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ نسل اس سانحے کے بعد پیدا ہوئی اور وہ بنگلہ دیش کے لوگوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچاس ساٹھ سال بعد اس موضوع کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔