اسلام آباد(صباح نیوز) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا افغانستان سے خود مذاکرات کا کہنا وفاق پر حملہ ہے۔کوئی صوبہ براہ راست کسی ملک سے مذاکرات نہیں کر سکتا ،جس راستے پر وزیراعلی کے پی اور ان کے لوگ چل رہے ہیں، یہ ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے شاندار روایت قائم کی، سپیکر صاحب آ پ نے کسی سے یہ اقدام پوچھ کر نہیں لیا، سپیکر صاحب آپ کو کرسی اس چیز کی پابند کرتی ہے، یہ اپنے دور میں خود کیوں نہیں کرسکتے تھے؟ ۔انہوں نے کہا کہ جو بھائی پروڈکشن آرڈر پر ایوان میں آئے ہیں ان کو حق نمائندگی ملا ہے مگر ہم سے ہمارا حق نمائندگی کئی سالوں تک چھینا جاتا رہا، یہ ایوان اور اس کے درودیوار گواہ ہیں، ماحول کو قطعی طور پر گدلا نہیں کرنا چاہتا، تاریخ کی درستگی ضرور ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آج وزیراعلی کے پی نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ خود مذاکرات کریں گے، یہ وفاق پر حملہ ہے، جس راستے پر وزیراعلی کے پی اور ان کے لوگ چل رہے ہیں، یہ ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔وزیر اعلی کے پی کا افغانستان سے خود مذاکرات کا کہنا زہر قاتل ہے انہیں اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، کوئی صوبہ براہ راست کسی ملک سے مزاکرات نہیں کرسکتا۔ان کاکہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی 90کی دہائی میں حکومت تھی، بہت تلخی تھیں، ہم کوہسار یا کسی اور جگہ شام کو اکٹھے مل کر بیٹھ جاتے تھے ، ماحول کوگدلا کیا جارہا ہے یہ بھی تو تھوڑا سا ضمیر کو ٹٹولیں، کیا علی محمد خان نے اس وقت آواز بلند کی تھی، یہاں بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جو گزشتہ دور میں کابینہ میں تھے، کسی نے آواز بلند نہیں کی،کسی نے دلاسہ نہیں دیا، 90کی دہائی میں یہ روایات فالو ہوتی رہیں،اس کے بعد ایک لمبا گیپ آیا۔
خواجہ آصف کاکہنا تھا کہ ظلم وزیادتی کو سر اٹھا کر برداشت کرنا چاہیے کل یہاں آرٹیکل 6کی بات ہوئی تھی، واحد ممبر ہوں اس پارلیمنٹ کی تاریخ میں جس پر آرٹیکل 6لگا تھا،جو پی ٹی آئی کابینہ نے لگایا تھا، یہ کس کس انتہا تک گئے ہیں، نواز ، شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ کیا ہوتا رہا، فریال تالپور کو رات بارہ بجے اٹھایا گیا۔ 55سال کی دوستی رکھنے والے نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی۔ ان کاکہنا تھا کہ ہم اپنا اقدام خود اٹھاسکتے ہیں، ہمیں ہماری لیڈر شپ نے اتنی سپیس دی ہوئی ہے،وزیر دفاع نے کہا کہ شیر افضل مروت نے بہت تعمیری بات چیت کی، مروت صاحب میرے ساتھ اسمبلی میں چند لمحے کے لیے ملے تو ان کی اپنی پارٹی نے ان پر اتنی تنقید کی، یہاں یہ ماحول پیدا کیا گیا کہ دوسرے سے ہاتھ بھی نہیں ملانا، کبھی ہماری اور پیپلز پارٹی کی تلخی بھی رہی ہے لیکن برداشت کا لیول اتنا کم نہیں تھا۔وزیردفاع نے کہا کہ انہوں نے کسی کے بھی پروڈکشن آرڈر ایشو نہیں کیے تھے، انہوں نے آئین کو محترم نہیں جانا، عزت و تکریم زمین پر رولی گئی، آج یہ سپیکر کے اقدام پر یہ خوشی منارہے ہیں ،ہم ان کے ساتھ ہیں، اگر آپ کی روایات فالو کرنی ہیں تو اپنی بھی روایات کی مذمت کریں،
یاد رہے علی امین گنڈاپور نے کل ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے پاس مجھے وفد بھیجنے دیں وہ ہمارے پڑوسی ہیں، میرا خون بہہ رہا ہے میں کب تک برداشت کروں گا؟ میں اعلان کرتا ہوں کہ خود افغانستان سے بات کروں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایوان چلانا ہے جو روایات ایاز صادق نے طے کی ہیں ان پر عمل کیا جانا چاہیے ، جو روایات اسد قیصر نے بنائیں وہ نہیں ہونی چاہئیں، ایک بار اسد قیصر کے گھر میٹنگ تھی باہر چار ایجنسیوں کے بندے بیٹھے ہوئے تھے، جتنی بھی میٹنگز ہوتی تھیں آئی ایس آئی باہر بیٹھی ہوتی تھی، ماضی کے جھروکوں میں جانا چاہیے کہ پی ٹی آئی کے دور میں کیا ہوتا رہا۔قبل ازیں، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈرز پر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے گرفتار 10 اراکین کو پارلیمنٹ پہنچا دیا گیا۔ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفی کی زیر صدارت شروع ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس میں جن پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی میں پہنچایا گیا ہے، ان میں شیخ وقاص اکرم، زین قریشی، ملک اویس، عامر ڈوگر، احمد چھٹہ، زبیر خان، سید احد علی شاہ، سید نسیم علی شاہ، شیر افضل مروت اور یوسف خان شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے گرفتار 10 ارکان کو قائم قام سارجنٹ ایٹ آرمز فرحت عباس کے حوالے کیا گیا۔گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے گرفتار پی ٹی آئی اراکین پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور انہیں پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماں شیر افضل مروت، ملک محمد عامر ڈوگر، محمد احمد چٹھہ، مخدوم زین حسین قریشی، شیخ وقاص اکرم، زبیر خان وزیر، اویس حیدر جھکڑ، سید شاہ احد شاہ ، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے گئے تھے۔واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے اتوار کو پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد متعدد رہنماں کو گرفتار کیا گیا تھا۔