امریکہ میں صدارتی انتخابات 5 نومبر کو ہونگے لیکن تیاریاں ابھی سے زوروں پر ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن لڑینگے، اور ڈیموکریٹک پارٹی سے کملا ہیرس۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں، کیونکہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے اور اس کے فیصلے پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کملا ہیرس کے والدین پناہ گزین تھے۔ ان کی والدہ ایک اینڈو کرائنولوجسٹ تھیں جو 1959میں بھارت میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد ایک ماہر اقتصادیات ہیں جو جمیکا میں پیدا ہوئے۔ کملا کا سیاسی کیریئر کیلیفورنیا کی ریاست سے شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز الامیڈا کاونٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے کیا اورسان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی بن گئیں، جو وہاں کی سب سے اعلی پراسکیوٹر کا عہدہ ہے۔ اس کے بعد کیلیفورنیا میں انہوں نے مجرمانہ انصاف کے مسائل پر دائیں بازو کا رخ اپناتے ہوئے انتخابات جیتے اور ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس کو بھی اپیل کیا، جس کے نتیجے میں ریاست کی اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔بطور سینیٹر، کملا نے مباحثوں میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے، جہاں ان کی وکالت کی مہارتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے تو پوری دنیا واقف ہے، کیونکہ وہ امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کے دادا جرمنی سے پناہ گزین ہو کر آئے تھے، جبکہ ان کی ماں اسکاٹ لینڈ سے آئی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے والد نیو یارک کے ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے اور ٹرمپ خود بھی ایک کاروباری شخصیت اور ارب پتی ہیں۔
امریکہ میں کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں انتخابی مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے اور ان ریاستوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے، کیونکہ ان کا صدر منتخب کرنے میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ ایسی ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے سات ریاستیں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولائنا، پنسلوانیا، اور وسکونسن اس بار وائٹ ہاوس کی چابی رکھ سکتی ہیں۔ امریکی سوینگ اسٹیٹس میں حالیہ پولز کے مطابق کملا، ٹرمپ سے آگے ہیں۔ اور ریوٹرز/ ایپسوس پول کے مطابق بھی کملا ٹرمپ سے آگے ہیں۔ اس سروے کے مطابق کملا نے خواتین ووٹرز اور ہسپانوی ووٹرز کے درمیان ٹرمپ پر کئی پوائنٹس کی برتری حاصل کی، جبکہ ٹرمپ نے سفید فام ووٹرز اور مردوں کے درمیان برتری حاصل کی۔ ٹرمپ سفید فام لوگوں میں کافی مقبول ہیں اور انہیں ان کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری طرف تقریبا 73ڈیموکریٹک رجسٹرڈ ووٹرز نے کہا کہ کملا کے انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد وہ نومبر میں ووٹ ڈالنے کے بارے میں زیادہ پرجوش ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کے مارچ کے ایک سروے میں 60جواب دہندگان بائیڈن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے، جو بنیادی طور پر ٹرمپ کو روکنے کیلئے ایسا کر رہے تھے، جبکہ اگست کے سروے میں کملا ہیرس کے52ووٹرز انہیں ٹرمپ کی مخالفت کے بجائے بطور امیدوار سپورٹ کرنے کیلئے ووٹ دے رہے تھے۔
بائیڈن نے 21جولائی کو اپنی انتخابی مہم اس وقت ختم کر دی جب ٹرمپ کے ساتھ ایک ناکام مباحثے کے بعد ان کے ساتھی ڈیموکریٹس نے انہیں دوبارہ مہم میں حصہ لینے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ ڈیموکریٹس کو خدشہ تھا کہ بائیڈن ٹرمپ کا موثر طریقے سے مقابلہ نہیں کر سکیں گے، اس لیے انہوں نے کملا کو ٹرمپ کے مد مقابل کھڑا کر دیا۔ کملا کی آمد سے انتخابی مقابلہ دوبارہ سخت ہو گیا ہے، کیونکہ ان کی مقبولیت اپنے ووٹرز میں بائیڈن سے زیادہ ہے اور عمر کے لحاظ سے بھی وہ اپنے مخالف سے زیادہ متحرک اور توانا ہیں۔ تاہم، بائیڈن کی صدارت کو بلند افراطِ زر، بڑے صنعتی پالیسی بلوں، اور بین الاقوامی سطح پر انتشار جیسے مسائل کے ساتھ جوڑا گیا ہے، اور ریپبلکنز ان مسائل کا الزام کملا پر بھی عائد کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کی مہم کی کامیابی کو کمزور کیا جا سکے۔
لیکن ٹرمپ، جو 2024کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں، کو ریاستی اور وفاقی سطح پر متعدد الزامات کا سامنا بھی ہے۔ ان کی قانونی ٹیم مختلف مقدموں کو زیادہ سے زیادہ تاخیر سے نمٹانے کی کوشش کر رہی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اگر وہ دوبارہ وائٹ ہاوس میں آ گئے تو وہ ممکنہ طور پر جیل جانے سے بچ سکیں گے یا اسے موخر کر سکیں گے۔
جب ٹرمپ نے مارچ میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی حاصل کی، تو وہ چار مختلف مقدمات میں سنگین الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔ انکے خلاف ایک وفاقی مقدمہ، جو 2020کے امریکی صدارتی انتخابات کو الٹانے کی کوششوں اور 6جنوری کو کیپٹل ہل حملے میں ان کے مبینہ کردار پر مبنی ہے، ابھی زیرِ سماعت ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو کاروباری ریکارڈز میں جعلسازی کے ایک مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا، لیکن صدارتی استثنی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے یہ فیصلہ اب معلق ہے۔
ٹرمپ پر خفیہ دستاویزات کے غلط استعمال اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے، لیکن 15 جولائی کو جج نے یہ مقدمہ خارج کر دیا، محکمہ انصاف اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رہا ہے، لیکن اب تقریبا یقینی ہے کہ یہ مقدمہ نومبر کے انتخابات سے پہلے نہیں ہو سکے گا۔ ٹرمپ اور 18شریک ملزمان پر جارجیا ریاست کے قانون کے تحت 2020کے انتخابات کو الٹانے کی مجرمانہ سازش کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ یہ مقدمہ ابھی جاری ہے، اور قانونی کارروائیاں مختلف مراحل میں ہیں۔ لیکن ان مقدمات پر جس طرح کام ہو رہا اس سے نہیں لگتا کہ ان کی وجہ سے ٹرمپ انتخابی دوڑ سے باہر ہو جائینگے یا ان کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ آ جائیگی۔ ان کو کامیابی بھی ہو سکتی ہے اور صدر بن سکتے ہیں۔ 13جولائی کو پنسلوانیا میں ایک جلسے کے دوران، ایک 20سالہ نوجوان نے ڈونلڈ ٹرمپ پر گولی چلائی، جو ان کے کان کو چھوتے ہوئے گزرگئی اور جس کی وجہ سے ایک راہگیر ہلاک ہو گیا۔ حملے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ ٹرمپ کے حوصلے پست ہو جائیں گے، لیکن اس حملے نے بھی ٹرمپ کے حوصلے کو کمزور نہیں کیا۔ بلکہ حملے کے بعد بھی ٹرمپ کافی متحرک اور مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم، ان کے مقابلے میں جو ڈیموکریٹک امیدوار ہیں وہ بھی کمزور نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقابلہ کافی سخت ہوگا۔
بہرکیف، امریکہ میں چاہے کوئی بھی صدر منتخب ہو یا کسی بھی پارٹی کی حکومت بنے، پاکستان کے ساتھ امریکی رویے یا تعلقات میں نمایاں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ امریکہ پاکستان کو، چاہے وہ ڈیموکریٹک ہو یا ریپبلکن پارٹی کی،اب چین کے تناظر میں دیکھتا ہے اور چین، افغانستان اور پاکستان پران کی پالیسی تقریبا ایک جیسی ہوگی۔ اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاکی ابتدا ریپبلکن پارٹی کی حکومت نے کی، لیکن اس عمل کو مکمل ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے کیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ