انسان قصور وار ہے غلطی کرنا اسکی سرشت میں ہے بعض اوقات جسے غلطی سمجھا جارہا ہوتا ہے، وہ کسی فرد کی آزادانہ رائے اور منفرد سوچ بھی ہو سکتی ہے۔ جب لوگ مختلف بات کو سمجھنے اور قبول کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو پھر اسے غلطی قرار دے دیتے ہیں، انہی غلطیوں میں پوشیدہ دروازوں کو کھولنے والی نئی دستکیں رکھی ہوتی ہیں کیونکہ غلطی کرنیوالا لگے بندھے راستے پر نہیں چلتا وہ اپنی گفتگو اور عمل کو ٹیڑھے راستوں سے گزار کر کچھ نیا تلاش کرتا ہے۔ اسی لئے انسان کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے کیونکہ اسکے من کی خواہشات، تخیل کی اڑانوں اور معاشرے کے ضابطوں میں ایک ان دیکھی جنگ جاری رہتی ہے وہ وقت کی عطا کردہ زنجیروں کو توڑنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا رہتا ہے جنہیں زمانہ غلطیاں قرار دیتا ہے۔ بلھے شاہ کی سوچ انسان کی سربلندی کے خواب دیکھتی تھی معاشرے میں طبقاتی نظام کی نفی چاہتی تھی، ٹھیکے داری کو رد کرتی تھی ایک خالق اور ایک مخلوق کا نعرہ لگاتی تھی، ایسی سوچ کو ہی باغیانہ سوچ کا نام دیا جاتا ہے ایسی سوچ کی پنیری قصور میں ہی پنپ سکتی تھی اسلئے بلھے شاہ کو اپنی جنم بھومی چھوڑ کر قصور میں آباد ہونا پڑا تاکہ وہ قصور کی منزلیں سر کرسکے، اس فضا نے اندر بھرے شعلے کو ہوا دی اور فکر کے چراغ میں ایسا تیل ڈالا کہ جلنے کی خوشبو پوری دنیا تک پہنچی۔مختلف عقیدوں، فرقوں اور طبقات میں بٹے نفرت اور تقسیم کا ہجر جھیلتے لوگ وحدت الوجود کے ساز پر علم، دانش، انسانی وقار، کائناتی سانجھ اور محبت میں رچی مدھر پکار سن کر بلھے شاہ کے گرد جمع ہو گئی، جہاں انکی سماعتوں میں لمبے لمبے بھاشن انڈیلنے کی بجائے سرمستی کے عالم میں چلہ کاٹنے کا مشورہ دیا گیا، تاکہ سب سے پہلے اپنی ذات کو دریافت کرنے کی سعادت حاصل کی جا سکے۔ کیونکہ رائج دستور کے مطابق اپنی ذات کے علم سے بے خبر لوگ خالق کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے تھے کہ اسکی جانب جانیوالے رستوں کے سارے نقشے اور نشانیاں تو انسان کی ذات کے اندر پوشیدہ ہوتی ہیں۔ جب تک اپنے اندر کو کھوج نہ لیا جائے نہ حیات کا سرا ہاتھ میں آتا ہے نہ کائنات کا، نہ تخلیق کی تفہیم ہوتی ہے اور نہ ہی خالق تک رسائی، علم اور مرتبے کا کاروبار کرنیوالوں کو ایسی گستاخی کہاں منظور تھی، بلھے کیلئے شہر بدر ی کا اعلان ہوا تو اس نے کسی سمجھوتے کے ذریعے شہر میں رہنے کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے نظریات کی گٹھڑی اٹھائی اور ایک ویران جگہ ڈیرا لگا لیا، عشق اور فکر کی خوشبو نے لوگوں کو پروانوں کی طرح وہاں اکٹھا کیا اور بلھے کے افکار کے ارد گرد بستی بسنے لگی تمام عمر بلھا ایک نقطے کی رمز سمجھاتا رہا، ہر طرح کی تقسیم کو رد کرکے آفاقیت کا نعرہ لگاتا ہوا انسان کے وقار کا پرچم سر بلند کرتا رہا ،ظاہر پرستی کی خباثتوں کو سامنے لاتا رہا، یہی اسکا قصور بن گیا ۔نفرت کرنے والوں نے شہر بدر کرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا، اسکے جنازے کو متنازع بنا کر اس کی قدر و قیمت کم کرنے کی کوشش کی لیکن علم کا سچ کہاں چھپتا ہے ،بلھا آج بھی زندہ ہے کہ موت کا کوئی وجود نہیں انسان انتقال کرتا ہے پہلی منزل سے اگلی منزل کی طرف نچلے درجے سے بہتر درجے کی طرف ،وہ ساری نیک اور پاک روحیں دنیا سے جانے کے بعد بھی ہمارے ارد گرد موجود رہتی ہیں۔قصور اور لاہور میں داتا گنج بخش اور بلھے شاہ کے عرس کے حوالے سے سیمینارز کانفرنسوں،گائیکی کلام اور محفل سماع کی رونقیں عروج پر ہیں۔ولایت کا سفر جاری رہتا ہے ہدایت یافتہ نوازے ہوئے لوگ ہمارے درمیان موجود رہتے ہیں جن کی اولین کوشش زندگی کو اجالوں سے سرفراز کرنا ہوتا ہے۔قصور کی روحانی ہستی سید مشتاق شاہ کی یادوں اور باتوں کی کرنوں سے سجے پیاس کالج قصورکے وسیع صحن میں عبدالحئی فاونڈیشن کی طرف سیراقم کی صدارت میں مشاعرہ ہوا جو رات گئے جاری رہا ۔اس روحانی محفل نے میرے وجود کو عجیب سی سرشاری اور اطمینان بخشا جسے شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔خادم کھوکھر قصور میں بلھے شاہ کا وہ عقیدت مند ہے جو ہر سال بڑے لگن جستجو اور محبت سے عرس کے موقع پر بڑی تقریب منعقد کرتا ہے۔ سیاست دان ،دانشور، ادیب اور بلھے شاہ کے چاہنے والے اکٹھے ہوتے ہیں،گفتگو ،سنگیت اور مشاعرہ کے ذریعے بلھے کی فکرسے لوگوں کے دل پر دستک کا سلسلہ کیا جاتا ہے۔ کھوج گڑھ کے ڈائریکٹر اقبال قیصر بلھے شاہ کافکری گدی نشین ہے ،اسکے تن پر بلھے کے نظریات کی چادر اور قول و فعل پر افکار کا پہرہ ہے ۔کھوج گڑھ میں، ادب اور تحقیق کی دنیا کے بڑے نام اور دانشور حسین مجروح کی صدارت میں عمدہ مذاکرہ ہوا۔ داتا گنج بخش پر شہر میں بہت سی کانفرنسیں اور محافل سماع منعقد ہوئیں مگر ان سب پر محسن جعفر کا ترتیب دیا ہوا پروگرام بھاری رہا کہ پہلی بار مزار اور صاحب مزار پر ایسے زاویوں سے بات ہوئی جو بہت کم کم ہوتی ہے۔ علمی اور روحانی آسودگی کے علاوہ ان درباروں کی سب سے بڑی پہچان مخلوق کی دل جوئی بھی ہے، خدا کرییہاں کے لنگر سدا آباد اور برآمدوں کے ستونوں کو تھام کے بیٹھے لوگ شاد رہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ