چوہدری صاحب جھکی جھکی نظروں کے ساتھ آہستہ آہستہ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں آپ کو ہمیشہ غلط سمجھتا تھا لیکن آج آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں غلط تھا اور آپ صحیح تھے۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ چھوڑیئے ان باتوں کو اور کافی پیجئے۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں۔ مجھے تھوڑا بولنے دیں۔ وہ اپنا غبار نکالنا چاہتے تھے۔ کہنے لگے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپ جبری گمشدگیوں کے خلاف بولتے تھے تو میں آپ پر بہت تنقید کرتا تھا۔ آپ پر پابندی لگی تو میں بہت خوش تھا۔ میرا خیال تھا آپ پاکستان سے چلے جائیں گے لیکن آپ نہیں گئے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں آپ پر پھر پابندی لگ گئی تو میں نے دوستوں سے کہا کہ اب حامد میر سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ گئی اب یہ کسی مغربی ملک میں جا بسے گا لیکن آپ کہیں نہیں گئے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میرا اپنا بھائی غائب کر دیا گیا اور پھر اس پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تو پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ آپ ٹھیک ہیں۔ یہ سن کر میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ چوہدری صاحب نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ چوہدری صاحب مشرف دور میں آپ حکمران جماعت میں تھے اس لئے آپ مجھے غلط سمجھتے تھے۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی آپ حکمران جماعت کے ساتھ تھے اس لئے آپ مجھے غلط سمجھتے تھے لیکن آج کل آپ اپوزیشن میں ہیں اس لئے آپ کو میں ٹھیک لگنے لگا ہوں لیکن جب آپ دوبارہ حکومت میں آئیں گے تو میں پھر سے غلط آدمی بن جائوں گا۔ چوہدری صاحب نے صوفے پر اپنا پہلو بدلا۔ گلا صاف کیا اور انگلی اٹھا کر کہا کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ پھر تھوڑے مدھم لہجے میں پوچھنے لگے کہ میر صاحب ایک بات تو بتائیں، آج کل سوشل میڈیا پر آپ کے ساتھ بہت گالی گلوچ کی جا رہی ہے کوئی آپ کو پاکستان کا غدار کہتا ہے کوئی پنجاب کا غدار کہتا ہے لیکن آپ اپنی جگہ پر کھڑے ہیں، آپ نے کبھی پاکستان چھوڑنے پر غور نہیں کیا؟ میں نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا کہ چوہدری صاحب آپ کسی وقت میرے ساتھ اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ، لاہور کی انارکلی، پشاور کے قصہ خوانی بازار، کوئٹہ کے سریاب روڈ یا ہزارہ گارڈن، کراچی کی زینب مارکیٹ یا مظفر آباد کے کسی بھی چوک اور چوراہے میں چلیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں پاکستان کو کیوں نہیں چھوڑتا؟ سوشل میڈیا پاکستان کی رائے عامہ کی عکاسی نہیں کرتا اصلی پاکستان سوشل میڈیا والے پاکستان سے بالکل مختلف ہے لہذا میں سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور میرا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر لڑائیاں لڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ چوہدری صاحب خاموشی سے میری باتیں سن رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ انہوں نے مجھ سے رخصت لی اور چلتے چلتے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر پاکستان میں بیٹھے رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے میں تو پاکستان سے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر مجھے جھٹکا لگا کیونکہ چوہدری صاحب کی عمر ساٹھ سے اوپر ہے۔ میں نے کہا آپ شوق سے جائیں لیکن پاکستان میری ضد بن چکا ہے۔ دو قاتلانہ حملوں، تین دفعہ پابندیوں اور کئی جھوٹے مقدمات کے باوجود میں پاکستان چھوڑ کر اپنے دشمنوں کو فتح کے احساس کا تحفہ نہیں دینا چاہتا۔
چوہدری صاحب نے دعائیہ انداز میں کہا … اللہ آپ کی ضد کو قائم رکھے اور وہ رخصت ہوگئے۔ اگلے دن قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں مجھے بلوچستان کے مسئلے پر ایک لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا۔ میں نے بلوچستان کے مسئلے کا ایک سادہ حل پیش کیا اور کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل قانون کی بالادستی ہے اگر ریاست بلوچستان میں قانون نہ توڑے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کر دے تو تمام مسائل طے پا سکتے ہیں۔ میرے سامنے بیٹھے نوجوانوں کی اکثریت مجھ سے متفق نہیں تھی۔ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ 2021 میں آپ پر کس قانون کے تحت پابندی لگائی گئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ مجھ پر پابندی کا حکم کسی عدالت نے دیا نہ ہی پیمرا نے دیا لیکن میں نے نو ماہ تک پابندی کا سامنا کیا۔پاکستان میں رہ کر غیرملکی اخبارات میں کالم لکھتا رہا۔ اگر میں پاکستان چھوڑ کر بھاگ جاتا تو آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوسکتا۔ جواب مکمل ہونے پر چند طلبہ وطالبات نے تائید میں سر ہلایا لیکن اکثریت جواب سے مطمئن نہ تھی۔ ایک اور طالب علم نے پوچھا کہ 2014 میں آپ پر قاتلانہ حملے کی انکوائری کیلئے سپریم کورٹ نے کمیشن بنایا۔ آپ کو کوئی انصاف ملا نہ کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی لیکن آپ نے اسلام آبادہائی کورٹ میں ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست دائر کردی۔ آپ کو خود تو انصاف ملا نہیں آپ ارشدشریف کو انصاف کیسے دلائیں گے؟۔یہ ایک مشکل سوال تھا جو کئی صحافی بھی مجھ سے پوچھ چکے ہیں۔ میں جواب یہ دیتا ہوں کہ ہمارا آئین اور قانون ہی ہماری طاقت ہے۔ اگر ہم اس آئین اور قانون سے باہر نکل کر انصاف مانگیں گے تو پھر آئین توڑنے والوں اور ہمارے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اس لئے انصاف ملے نہ ملے انصاف کی فریاد کرتے رہنا چاہیے کیونکہ فریاد ہی مظلوم کی طاقت ہے اور میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ مظلوم کیلئے سڑک پر نکلیں یا نہ نکلیں دل میں ہمیشہ ظالم کو برا سمجھتے ہیں۔ انہیں جب بھی ووٹ کے ذریعہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملتا ہے یہ ہمیشہ ظالم کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں اور اسی لئے ہمارے ہر الیکشن میں دھاندلی کا ایک نیا اور بدترین طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک اور سوال کیا گیا کہ پاکستان میں جوبھی حکومت میں آتا ہے وہ اپنے مخالف کو غدار قرار دیتا ہے جس ملک میں غداروں کی بھرمار ہوجائے اس ملک کا کیا مستقبل ہے؟میں نے سوال کرنے والے کو بتایا کہ مجھے سب سے پہلے 2005 میں اس وقت کے ڈی جی، آئی ایس پی آر نے پی ٹی وی پر ریاست کا دشمن قرار دیا۔ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے آزاد کشمیر کی وادی نیلم کے ایک پہاڑی گائوں میں جا کر لوگوں کے انٹرویوز کئے تھے جنہوں نے یہ شکایت کی تھی اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد کئی ہفتوں تک انہیں کوئی سرکاری امداد نہیں ملی۔ جنرل مشرف نے میرے دعوے کی انکوائری وائس آرمی چیف جنرل احسن سلیم حیات سے کرائی اور میں سچا نکلا۔ 2021 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں ٹی وی چینلز کے مالکان کے سامنے الزام لگایا کہ حامد میر نے ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کے گھر کے سامنے جاکر شو کیا اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنا م کیا۔ ظاہر ہے یہ ایک جھوٹ تھا۔ میں کبھی اجمل قصاب کے گائوں گیا ہی نہیں تھا۔ جب میرے خلاف بول ٹی وی پر ایک منظم مہم شروع کی گئی تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مجھ سے معذرت کی۔ جس ریاست میں طاقتور لوگوں کا واحد ہتھیار جھوٹ ہو وہاں زندگی مشکل ہو جاتی ہے لیکن اگر آپ سچ کو اپنی ضد بنالیں تو طاقتور کا انجام وہی ہوتا ہے جو مشرف اور باجوہ کا ہوا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ