فوج پی ٹی آئی مذاکرات ممکن کیسے؟… تحریر : انصار عباسی


ن لیگ اور محمود خان اچکزئی کے درمیان رابطوں کی تو تصدیق ہو چکی۔ ان رابطوں میں میرے ذرائع کے مطابق ن لیگ نے زور دیا کہ تحریک انصاف سے آمنے سامنے بیٹھ کر ہی بات ہو سکتی ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ محمود خان اچکزئی کیساتھ حکومتی جماعت ان معاملات پر بات کرے جن کا تعلق خالصتا تحریک انصاف اور اسکے طرز سیاست سے ہے۔یہ بھی تجویز سامنے آئی ہے کہ اگر تحریک انصاف اپنے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ یا حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کیساتھ کھل کر مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو یہ مذاکرات خفیہ بھی رکھے جا سکتے ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ محمود خان اچکزئی تحریک انصاف کی قیادت کو مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بنانے پر راضی کریں جو حکومت کی کمیٹی سے بات جیت کرے۔ جب اس سلسلے میں میں نے خبر دی محمود خان کی ن لیگ کیساتھ رابطوں کی تصدیق کی۔ ن لیگ کی طرف سے ان رابطوں کی تصدیق تو ہوئی لیکن حکمران جماعت کے کچھ دوسرے رہنماؤں بشمول احسن اقبال اور خواجہ آصف نے تحریک انصاف سے بات چیت کی مخالفت کر دی۔ احسن اقبال نے بات چیت کیلئے9مئی کے واقعات پر تحریک انصاف کی طرف سے معافی مانگنے کی شرط رکھ دی جبکہ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے ایک خطاب میں تحریک انصاف کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی تھی جس کو اسی وقت وہاں موجود اپوزیشن لیڈر نے رد کر دیا اور کہا کہ حکومت سے مذاکرات کیلئے پہلے تحریک انصاف کی شرائط کو تسلیم کیا جائے جس میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو جیلوں سے رہا کیا جائے، فروری 8 کے انتخابات میں چوری شدہ مینڈیٹ تحریک انصاف کو واپس کیا جائے۔ 9مئی کے حوالے سے تحریک انصاف معافی مانگنے کی بجائے بضد ہے کہ یہ تو ان کے خلاف سازش تھی جس پر وہ 9 مئی پر تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو شرائط تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں اگر انکی موجودگی میں مذاکرات نہیں ہو سکتے تو دوسری طرف ن لیگ اگر واقعی مذاکرات چاہتی ہے تو اسے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہو گی۔ 9مئی اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے فوج اور فوجی قیادت پر حملوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو ایک انتشاری ٹولے کے طور پر دیکھتی ہے۔ جس سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ انتشاری ٹولہ کے طور پر دیکھ رہی ہو اس سے اس کی مرضی کی شرائط کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومتی جماعت ن لیگ کیسے مذاکرات کر سکتی ہے؟ ہاں اگر تحریک انصاف غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہو جاتی ہے توپھر بات چیت کا کوئی رستہ نکل سکتا ہے۔ جب حکومت سے تحریک انصاف کے مذاکرات ہونگے تو ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ بھی ایک نہ نظر آنے والے فریق کے طور پر ان مذاکرات میں شامل ہو گی کیوں کہ حکومت9 مئی اور کچھ دوسرے اہم معاملات میں وہی موقف مذاکرات کی ٹیبل پر رکھے گی جو موقف اسٹیبلشمنٹ کا ہو گا۔ عمران خان ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی مذاکرات چاہتے ہیں۔ اگرچہ براہ راست ایسے مذاکرات فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہے لیکن بالواسطہ یہ مذاکرات ہو سکتے ہیں جس کیلئے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تحریک انصاف کو غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہو نا ہو گا جبکہ ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کو اس سارے معاملے میں لوپ پر رکھنا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ